فیک نیوز کا زمانہ ہے، کوئی بے تُکی خبر پڑھنے سننے کوملے توفوراً اس پر اعتبار کرنے کی عادت نہیں۔ مانچسٹر برطانیہ میں موجود گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر سے منسوب بیان سنا تو اسی لیے اسے درخورِ اعتناء نہ سمجھا۔
تاہم کچھ ہی گھنٹوں میں سوشل میڈیا میں ہاہاکار کے بعد سرِشام بڑے بڑے چینلز پر یہی موضوع زیرِ بحث پایا تو خبر پر اعتبار کرنا پڑا۔ مزید تصدیق کے لیے ویڈیو بھی دیکھی تو یقین کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔
روپے کی شرح تبادلہ بڑھنے سے کچھ لوگوں کو نقصان ہوا توکچھ لوگ اس سے مستفید بھی ہوئے ہیں۔ ہر اقتصادی پالیسی سے کچھ لوگوں کو فوائد اور کچھ کو نقصان پہنچتا ہے، لہٰذا جب ان کی نشاندہی کی جائے جو مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں تو ہمیں انھیں بھی نہیں بھولنا چاہیے جو اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
اوورسیز پاکستانیوں کو اس کا سب سے زیادہ فائدہ ہوا ہے؛ حساب کتاب کے آدمی ہیں، اسی لیے رضا باقر نے مزید وضاحت کی؛ فرض کریں رواں سال ہماری ترسیلاتِ زر30ارب ڈالرز تک پہنچ جاتی ہیں، ہمیں امید ہے کہ یہ اس سے زیادہ ہوں گی اور گزشتہ چند ماہ میں روپے کی قدر بھی 10%کم ہوئی ہے، اس سے اوور سیز پاکستانیوں کے خاندانوں کو اضافی تین ارب ڈالرز ملیں گے جو500 ارب روپے سے بھی زیادہ بنتے ہیں۔
اگر یہ سادگی میں کہا گیا ہے تو یہ ہر گز ویسی سادگی نہیں جس پر مرنے کو دل چاہے، ہاں اگر یہ عقل عیار کا بہانہ ہے جو سو بھیس بدل لیتی ہے تو بھی ایسی عقل کو دور ہی سے سلام۔ گورنر اسٹیٹ بینک واشنگٹن میں آئی ایم ایف مذاکرات سے واپس آ رہے تھے جن کی کامیابی میں عین آخری وقت کچھ شقیں اور شرطیں حائل ہو گئیں۔
پی ٹی آئی کے بہی خواہوں کے ہمراہ جس محفل میں وہ گفتگو کر رہے تھے وہاں انھوں نے مذاکرات کے بارے میں " اچھی خبر" کی نوید دی تو دوسری سانس میں وزیر اعظم کا پیغام بھی دیا کہ روشن ڈیجیٹل اکاونٹس کی تعداد دو لاکھ ہو چکی ہے اور ان میں سو دو سو ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری بھی ہو چکی ہے۔ موقع اور دستور اچھی خبروں کا تھا لہٰذا انھوں نے روپے کی گرتی ہوئی شرح مبادلہ میں سے " ایک اچھائی " ڈھونڈ کر سامعین کو مطمئن کرنے کی کوشش کی۔ ان کی یہ سادہ اور نیک نیتی سے کہی ہوئی بات کا یار لوگوں نے وہ بتنگڑ بنا دیا کہ خدا کی پناہ!
ایک موصوف پر ہی کیا موقوف، جب سے ملک میں مہنگائی پر شور و غوغا اٹھا ہے، کئی وزیر باتدبیر اپنے اپنے تدبر کے مطابق انتہائی صائب مشورے دے رہے ہیں۔ وفاقی وزیر با تدبیر علی امین گنڈا پور نے گزشتہ ہفتے قوم کو مشورہ دیا ؛ اگر میں چائے میں سو دانے چینی کے ڈالتا ہوں اور نو دانے کم ڈال دوں گا تو کیا وہ کم میٹھی ہو جائے گی؟ کیا ہم اپنے ملک کے لیے، خود مختاری کے لیے اتنی سی قربانی بھی نہیں دے سکتے کہ جہاں میں آٹے (روٹی)کے سو نوالے کھاتا ہوں وہاں نو نوالے کم ہو جائیں۔ مگر اس پر بھی یار لوگوں نے سوشل میڈیا پر ان کی بھلی چنگی بات کا بتنگڑ بنا دیا۔
ایک اور وفاقی وزیر فواد چوہدری نے بھی چند روز قبل تیل کی قیمتوں میں اضافے اور مہنگائی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا؛ تیل کی قیمتوں میں اضافے کو لے کر ایسے پروپیگنڈا ہو رہا ہے جیسے ہم دنیا سے علیحدہ کسی سیارے پر ہیں، اگر دنیا میں تیل اور گیس اوپر جائے گا تو پاکستان میں بھی اوپر جائے گا۔ معاشی مشکلات عارضی ہیں، انڈسٹری، زراعت اور تعمیرات کے شعبے تاریخی منافع کما رہے ہیں، تنخواہ دار طبقے کی مشکلات ہیں جس کے لیے پرائیویٹ سیکٹر اپنے ورکرز کی تنخواہوں میں اضافہ کرے، آمدنی اور روزگار میں اضافہ مہنگائی کا توڑ ہے۔
وزیر اعظم نے البتہ ایک عملی قدم اٹھانے کا سوچا ہے ؛ کم آمدنی والے افرادکو مہنگائی سے بچانے کے لیے احساس ٹارگٹڈ سبسڈی پروگرام۔ کم آمدنی والوں کے لیے موٹر سائیکل اور رکشے کو سبسڈی ریٹ پر پٹرول اور احساس موبائل پوائنٹ آف سیلز یوٹیلٹی اسٹورز کے ذریعے کم آمدنی والے افراد کو ٹارگٹڈ سبسڈی دینے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ اللہ کرے زور ِ استطاعت اور زیادہ۔
اس ہفتے کی اسی سلسلے کی کچھ اور خبریں بھی ہیں مثلاً آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات فیصلہ کن نہ ہو سکے، تاہم آخری وقت پر کچھ گرین سگنل ملا جس پر مشیر خزانہ شوکت ترین بھاگم بھاگ واشنگٹن مذاکرات میں دوبارہ شریک ہوئے مگر معاملات پھر لٹک جانے کی اطلاع ہے۔ فیٹف نے پاکستان کو اگلے جائزے تک بدستور گرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اکونومسٹ رسالے نے ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ پاکستان دنیا کا چوتھا مہنگا ترین ملک ہے جہاں مہنگائی کی شرح 9 % ہے۔ ایک خبر یہ بھی مالیاتی حلقوں میں گردش کر رہی ہے کہ شرح سود میں ایک فی صد اضافہ متوقع ہے۔ پہلی سہ ماہی میں تجارت اور خدمات کا خسارہ دس ارب ڈالرز سے زائد جب کہ کرنٹ اکاوئنٹ خسارہ تین ارب چالیس کروڑ ڈالرز رہا۔ انٹر بینک میں روپے کی قدر 174 روپے تک گر گئی۔
حکومت کے پاس معیشت کے ان نازک مسائل کا حل کیا ہے؟ وزیر اعظم، وزراء اور گورنر اسٹیٹ بینک سے اقدامات کی روداد واضح ہو گئی کہ کیا کر رہے ہیں۔ اس پر ریڈیو پاکستان سے متعلق ایک بہت پرانا واقعہ یاد آیا ؛ لائیو پروگرام پلاننگ سے پانچ منٹ قبل ہی ختم ہو گیا۔ چھ بجے اگلے پروگرام میں پانچ منٹ باقی تھے، پروڈیوسر کے ہاتھ پاؤں پھول گئے کہ اب یہ پانچ منٹ کیسے بھرتی کرے۔ اتفاق سے ساتھ والے اسٹوڈیوز میں میوزک پروگرام کی ریہرسل ہو رہی تھی۔
پروڈیوسر نے ساتھی پروڈیوسر سے مدد مانگی۔ جلد بازی میں آرکسٹرا نے کچی پکی دھنیں بجانا شروع کردیں اور یوں وہ آن ایئر ہو گیا۔ اتفاق سے اسی دوران استاد امانت علی اسٹوڈیوز میں داخل ہوئے، بے وزن آرکسٹرا سن کر قدرے خفگی سے پوچھا؛ یہ کیا بجا رہے ہیں؟ پروڈیوسر نے اطمینان سے جواب دیا؛ یہ چھ بجا رہے ہیں۔