تحریک انصاف کی حکومت اور پارٹی کے اندر جس طرح معاملات بگڑ رہے ہیں ان سب کے باوجود بھی میں اس رائے پر مضبوطی سے قائم ہوں کہ تحریک انصاف کی ساخت اور ڈھانچے میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ اختلافات داخلی انتشار میں اپنا توازن برقرار رکھ سکے۔ تمام تر اندرونی اور بیرونی مسائل کے باوجود ہمالیہ کی طرح پارٹی بڑھتی اور پھلتی پھولتی رہے گی۔
برسر اقتدار انے والی ایک نئی پارٹی جو غیر فطری اتحادیوں کی حمایت سے قائم ہو اور بلا امتیاز احتساب اور کسی سے بھی رعایت برتنے کو تیار نہ ہو اس میں سے باغی اور منحرف ارکان کا ظاہر ہونا کوئی انہونی نہیں، سچ تو یہ ہے کہ تحریک انصاف کی اتحادیوں کے ساتھ کھینچا تانی کی وجہ سے اس کی کارکردگی متاثر ہوئی ہے بلکہ پارٹی کے لئے اپنے منشور پر عمل کرنا اور انتخابی وعدے کو پورا کرنا بھی ممکن نہیں رہا۔ اس کے باوجود ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ پارٹی ابھی تک کے پی کے، گلگت بلتستان اور پنجاب میں اپنی اکثریت برقرار رکھے ہوئے ہے۔ پنجاب جہاں تحریک انصاف کو مضبوط اپوزیشن کا مقابلہ کرنے کے ساتھ ڈلیور بھی کرنا ہے، تحریک انصاف کے لئے میدان جنگ بنتا محسوس ہو رہا ہے۔
اس وقت تحریک انصاف کو پنجاب کے جن 30کے قریب جاگیرداروں، سرمایہ داروں، رئیل اسٹیٹ ٹائیکونز اور برادری کی بنیاد پر ووٹ حاصل کرنے والے سیاست دانوں کے چیلنج کا سامنا ہے ان لوگوں کو 2012ء میں جہانگیر ترین ہی پارٹی میں لائے تھے۔ ان لوگوں کو پارٹی مفاد کے بجائے اپنے ذاتی مفادات عزیز ہیں۔ ان لوگوں نے پارٹی کا کنٹرول سنبھالا اور دس کے قریب الیکٹ ایبلز کو پارٹی میں انتخابات سے پہلے شامل کروایا جو انتخابات جیت بھی گئے۔ اب یہی لوگ اپنے اپنے مفادات کے لئے پارٹی میں اپنا وزن ثابت کرنے کے علاوہ پارٹی قیادت اور پالیسی کو چیلنج کر رہے ہیں۔ اس گروپ کے پاس اتنے ارکان اسمبلی موجود ہیں کہ وہ تحریک انصاف کی پنجاب اور وفاق کی حکومتوں کے لئے مسائل پیدا کر سکتے ہیں مگر اس چیلنج سے نمٹنے کے لئے بہت سارے آئینی راستے موجود ہیں۔ بدقسمتی سے یہ تمام ڈرامہ پنجاب کے چند جاگیردار، سرمایہ دار خاندانوں کی طرف سے اپنے مفادات اور فائدے کے تحفظ کے لئے رچایا گیا ہے۔ یہی وہ چند خاندان ہیں جو قائد اعظم کے بھی وفادار نہ تھے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب میں اتنی بصیرت ہے نا ہی اتنی طاقت کہ وہ اس طاقتور لابی کو غیر موثر کر سکیں۔
اس طرح کے مفاد پرست عناصر ہمیشہ ہی پاکستان کی سیاست میں موجود رہے ہیں بلکہ ایسے عناصر نے ہی ریپبلکن پارٹی کی صورت میں قائد اعظم کے ویژن کی مخالفت کی تھی۔ یہ عناصر ہمیشہ اپنے مفادات کے لئے اکٹھے ہو تے رہے ہیں۔ قائد اعظم کی مخالفت کے بعد یہ گروہ دوسری بار معاشی اصلاحات کے وقت اکٹھا ہوا اور سرمایہ داروں اور جاگیرداروں نے اشرافیہ کے ساتھ مل کر بدعنوانی، منی لانڈرنگ باہمی تجارت کی اجارہ داری قائم کر لی۔ وہ تمام سرمایہ دار جو قومی اداروں کے قومیانے کے بعد متاثر ہوئے تھے ان کو دوسری زندگی مل گئی۔ تیسری کھیپ ملک میں 1985ء میں غیر جماعتی انتخابات کی وجہ سے پیدا ہوئی۔
اس حوالے سے آئی بی نے سسٹم کو موثر بنانے کے لئے ایک جامع تحقیق کی، ایک آئی بی آفیسر جو آج بھی آئی بی کو کنٹرول کر رہے ہیں وہ اس وقت ایک جونیئر آفیسر کے طور پر اس تحقیق کا حصہ تھے۔ جنہوں نے ماضی میں آئی بی کے لئے کام کیا اور آج سیاست دان ہیں وہ ایسے عناصر کی خریدوفروخت کے تمام حربے جانتے ہیں۔
میں نے 2018ء میں بھی پیش بینی کرتے ہوئے لکھا تھا کہ تحریک انصاف اپوزیشن بنچز پر زیادہ موثر ہو سکتی ہے۔ مقتدر حلقے جو تحریک انصاف کے ہمدرد تھے بھی نمبروں کے اس کھیل سے اچھی طرح واقف تھے مگر انہوں نے موجودہ اشرافیہ پر بھروسہ کرتے ہوئے امکانات کو نظر انداز کیا۔ اس وقت یہی حقیقت ہیں مقتدر قوتوں نے اشرافیہ کی طرف سے نظریاتی اور پارٹی مفادات کے برعکس ذاتی مفادات کی ترجیع کی تاریخ کو نظرانداز کر دیا تھا۔ اس اشرافیہ کے مفادات یکساں ہیں اور پس پردہ یہ ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ بھی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف مسلم لیگ ن کی قیادت کے خلاف عدالتوں میں زیر سماعت درجنوں مقدمات کی موثر پیروی نہ کر سکی۔
صوبے میں ایسے مخاصمانہ فطرت کے 40یا اس سے کچھ زیادہ گروپ ہیں جن میں سے کچھ علاقائی سیاست کی وجہ سے مسلم لیگ نون کے ساتھ نتھی ہیں جبکہ باقی ماندہ نے پنجاب کے فیصل آباد، جھنگ، کبیر والا، خانیوال، لڈن اور وہاڑی میں اپنی گرفت مضبوط بنا رکھی ہے۔ اس قسم کے علیحدہ طاقتور گروپ ملتان، وہاڑی، رحیم یار خان اورصادق آباد میں بھی ہیں جن میں سب سے طاقتور گروپ سرمایہ داروں کا ہے۔ یہی چند افراد ہمیشہ انتخابی امیدوار ہوتے ہیں۔ آج یہ افراد مسلم لیگ ن پیپلز پارٹی اور برادری لابی سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو جہانگیر ترین کی کوئی خاص اہمیت نہیں رہ جاتی۔ لیکن وہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے ساتھ مل کراپنے سرمایہ دارانہ اور خاندانی تعلقات کو نہایت ہنر مندی کے ساتھ استعمال کر رہے ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح وہ سیاست میں آنے سے پہلے استعمال کیا کرتے تھے۔
حکومت کا اصل امتحان تو امسال بجٹ سیشن کے وقت پنجاب اور وفاق میں ہو گا۔ اگر یہ گروپ بجٹ میں پارٹی کے حق میں ووٹ نہیں کرتا تو حکومت کے خاتمہ کا خدشہ پیدا ہو گا اور اس وقت تحریک انصاف کو بیل آئوٹ کرنے کی صلاحیت ایک ہی جماعت کے پاس ہو گی جس کی سینٹ میں بھی اکثریت موجود ہے اور وہ ہو گی پاکستان پیپلز پارٹی۔ اگر تحریک انصاف کا یہ گروپ بجٹ سیشن میں پارٹی کے خلاف ووٹ کر کے بحران پیدا کرتا ہے تو پیپلز پارٹی حکومت کے ساتھ سودے بازی کی پوزیشن میں آ جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ ترین گروپ بجٹ سے پہلے اپنی تمام تر قوت کو آزمانا چاہتا ہے۔ حکومت کے لئے بھی بہتر یہی ہو گا کہ وہ بجٹ سے پہلے ہی اس گروپ کو رام کرے اور پارٹی کے اندر لابیز کو غیر موثر کر دے۔ بدقسمتی سے تحریک انصاف وہ وقت اور حالات بھول چکی ہے جن میں پارٹی بنائی گئی تھی۔ منطقی طور پر دیکھا جائے تو تحریک انصاف میں حالیہ بغاوت داخلی انتشار محسوس ہو گی لیکن حقیقت میں ارتقائی عمل ہے جس سے تحریک انصاف گزر رہی ہے۔ ستر سال سے جڑیں پکڑے سیاسی کلچر کو توڑنا ہی تحریک انصاف کے لئے حقیقی چیلنج ہے۔