بھارتی یوم جمہوریہ کے موقع پر منگل کے دن مشتعل کسانوں کی ریلی نے تمام رکاوٹیں توڑ کر بھارت کے دارالحکومت دلی میں لال قلعے پر خالصتان کا پرچم لہرا دیا۔ مظاہرین مودی حکومت کی متنازع زرعی پالیسی کے خلاف تین ماہ سے سراپائے احتجاج ہیں۔
بھارتی حکومت نے مظاہرین کو لال قلعے تک پہنچنے سے روکنے کے لیے شہر بھر میں رکاوٹیں کھڑی کیں لیکن مظاہرین تمام رکاوٹیں توڑتے ہوئے ہزاروں ٹریکٹروں کے ساتھ لال قلعے کا محاصرہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ انتہا تو یہ ہوئی کہ مظاہرین نے قلعے میں داخل ہو کر "لاہوری دروازے" کے اوپر خاص جگہ جہاں بھارتی پرچم لہرا رہا تھا وہاں خالصتان کا پرچم لہرا دیا۔ انیس سو سینتالیس میں بھارت کے آزادی سے لے کر اب تک72 سالوں کے دوران یہ پہلی بار ہوا ہے کہ کوئی شخص یا تنظیم لال قلعے کا حفاظتی حصار توڑ کر اس جگہ جہاں بھارت کا قومی پرچم لہرا رہا ہو دوسرا پرچم لہرا دے۔
لال قلعہ کے ایک سو آٹھ فٹ بلند لاہوری گیٹ پر نہ تو چڑھنا آسان ہے اور یہاں جھنڈے کو اس طرح نصب کرنا بھی جان جوکھوں کا کام ہے۔ خالصتان کے اس جھنڈے پر سکھ مذہب کا امتیازی نشان "نشان صاحب" بھی بنا ہوا ہے۔ پیلے اور نیلے رنگوں میں تقسیم خالصتان کے اس جھنڈے کے درمیان میں دو دھاری تلوار کا نشان ہے جسے کرپان کہتے ہیں۔ اس ریلی کے دوران جس طرح لال قلعے پر خالصتان کا پرچم لہرایا گیا، اس سے خالصتان کی تحریک کو کتنا فائدہ یا نقصان ہوگا یہ ایک الگ بحث ہے، آج ہم لال قلعہ دہلی کے حوالے سے کچھ تاریخی حقائق پر بات کرتے ہیں۔
دہلی میں دریائے جمنا کے کنارے واقع لال قلعہ، مغلیہ سلطنت کے سنہری دور کی نشانی ہے۔ لال قلعے کو مغل بادشاہ شاہ جہاں نے تعمیر کرایا تھا۔ اس قلعے کے دیوان خاص میں "تخت طاوس" واقع ہے جہاں بیٹھ کر مغل بادشاہ ہندوستان کے طول و عرض پر حکومت کیا کرتے تھے۔ 2007 میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے لال قلعہ دہلی کو بین الاقوامی ورثے کی فہرست میں شامل کر لیا۔ بھارت کی آزادی کے پہلے دن 15 اگست 1947 کو کو وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے اسی قلعے کے دروازے لاہوری گیٹ کے اوپر بھارتی پرچم "ترنگا" لہرایا کرآزادی کی تقریبات کا آغاز کیا۔ اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے بھارت کے یوم آزادی کے موقع ہر سال اسی جگہ جھنڈا لہرایا جاتا ہے اور وزیراعظم قوم سے خطاب بھی کرتے ہیں۔
چند سال قبل جب مجھے بھارت جانے کا موقع ملا تو میں نے دوسری تاریخی جگہوں کے علاوہ اس قلعے کی سیاحت بھی کی۔ پرانی دلی کے علاقے جسے شاہجہاں آباد بھی کہا جاتا ہے میں واقعہ لال قلعہ کو دلی کی سب سے بڑی تاریخی عمارت شمارکیا جاتا ہے۔ 225 ایکڑ رقبے پر پھیلے ہوئے اس تاریخی قلعہ کے گرد طویل سرخ رنگ کی حفاظتی دیوار بنائی گئی ہے۔
یہ سیاحوں کے لیے ایک پر کشش تاریخی عمارت ہونے کے ساتھ ساتھ قدیم ہندوستان کے مغل حکمرانوں کی ثقافت اور تعمیری حسن کا مظہر ہے، اس میں شام کے وقت آواز اور روشنی (light and Sound) کی مدد سے پیش کیے جانے والے شو میں مغلیہ سلطنت کی یاد تازہ کی جاتی ہے۔ دنیا بھر سے آئے ہوئے سیاحوں کے لیے یہ شو خصوصی دلچسپی اور معلومات کا خزانہ ہے۔ بھارتی کرنسی کے پانچ سو روپے کے نوٹ کی پشت پر بھی لال کی تصویر نقش ہے۔
ہندوستان کے شہنشاہ، شاہ جہان نے 1636 میں جب دارالحکومت کو اگرا سے دہلی منتقل کیا تو اس قلعے کی تعمیر کی گئی۔ اس کا نقشہ اس دور کے ممتاز ماہر تعمیرات استاد احمد لاہوری نے بنایا۔ احمد لاہوری کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انھوں نے آگرہ کا تاج محل بھی ڈیزائن کیا تھا۔ لال قلعے کی تعمیر کا کام سات سال کے عرصے میں مکمل ہوا۔ یہ قلعہ دو سو سال تک مغل بادشاہوں کی رہائش گاہ رہا۔ اس کی تعمیر میں بڑے پیمانے پر لال پتھر استعمال ہوا اس بنا پر اسے لال قلعے کا نام دیا گیا۔ یہ قلعہ مغلیہ دور کے مزاج اور ہنرمندی کا عکاس ھے۔ اس قلعے میں داخلے کے دو بڑے دروازے ہیں۔
سب سے بڑے دروازے کا نام لاہوری گیٹ ہے جب کہ دوسرے کا نام دلی گیٹ ہے۔ تیسرے دروازے کے سامنے جمنا ندی بہتی ہے۔ سن 1747 میں نادر شاہ کے حملوں اور پھر 1857 کی جنگ آزادی کے ایام میں لال قلعے کو کافی نقصان پہنچا۔ برطانوی حکمرانوں نے اس قلعے کو چھاونی میں تبدیل کر دیا۔ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر بھی یہاں مقیم رہے۔ ان پر اسی قلعے میں عدالت لگائی گئی اور انگریزوں نے ملک بدری کی سزا دے کر برما کے دارالحکومت رنگون بیھج دیا۔ دنیا کا سب سے قیمتی کوہ نور ہیرا جو شاہ جہاں کے تاج میں جڑا ہوا تھا وہ بھی اسی قلعے میں رکھا جاتا تھا۔
جب ہندوستان سے انگریز راج ختم ہوا تو انگریز اس قیمتی ہیرے کو برطانیہ لے گئے۔ یہ ھیرا اب لندن کے میوزیم میں محفوظ ہے۔ سیاحوں کی بڑی تعداد کئی پونڈ کا ٹکٹ لے کر اس ہیرے کا دیدار کرتی ہے، جب میں پہلی بار برطانیہ گیا تو ہم نے بھی میوزیم میں اس ہیرے کو دیکھا۔ میوزیم کے جس حصے میں یہ ہیرا محفوظ ہے وہاں سیاحوں کو زیادہ دیر ٹھہرنے کا موقع نہیں ملتا۔ میوزیم کے اس حصے میں سیاحوں کو ایک برقی راستے) روش (کے ذریعے چند لمحے کے لیے کوہ نور ہیرے کے پاس سے گزارا جاتا ہے۔ کوہ نور ہیرا میوزیم کی جس گیلری میں محفوظ ہے وہاں سیکیورٹی کا خصوصی انتظام ہے۔