ہم ایک نہیں دو مختلف قسم کے انسان ہیں جن کے رویوں کا انحصار ظاہری نمودو نمائش سے زیادہ کچھ نہیں، کسی کا حلیہ دیکھ کر ہم یہ طے کرتے ہیں کہ تعلق کیسا روا رکھا جائے، وہ پڑوسی ہو یا رشتہ دار، کلاس فیلو ہو یا دوست، دفتر میں ساتھ کام کرنے والا کوئی ملازم ہو یا دست سوال دراز کرنے والا ہاتھ۔
ہم ایسے انسان ہیں جو محنت تو دو وقت کی روٹی اور آسائش کے لئے کرتے ہیں مگر اس کا ضیاع اپنا وقار گردانتے ہیں۔ متعدد مرتبہ ایسے کئی ذی وقار کھانے کی جگہوں پر نظر آتے ہیں جن کی میز کئی ذائقہ دار پر لطف کھانوں سے سجی ہوتی ہے اور بل کی ادائیگی کے بعد زیادہ تر یا اتنا کھانا ضرور بچتا ہے جو کسی ضرورت مند کی بھوک مٹا سکے۔۔ مگر کھانا پیک کون اور کیوں کروائے؟ یہ تو شان کے خلاف ہے۔ انہی جگہوں کے باہر کئی مستحق آس لگائے آپکے بچے کھانے کے منتظر ہوتے ہیں۔
دفتر میں شام کے اوقات کار، بلا کی سردی اور رات گئے کی واپسی، مگر وقت سے پہلے اندھیرے میں بجھتے کئی معصوم چراغ نظر آتے ہیں۔ سرد ہوا کے گولے جب ان کے جسموں سے ٹکراتے ہیں تو محسوس کرنے والا کار میں ہے یا کسی اور سواری پر، اپنے اندر محسوس کرتا ہے۔ سردی اور بھوک سے پیلے پڑے چہرے ماحول کی تازگی کے لیے یا تو پھول بیچتے ہیں یا وائپر کی مدد سے گاڑی کی ونڈ اسکرین کو صاف کر کے چند روپوں کے عوض آسانی فراہم کرتے ہیں۔ جھڑکیاں یا پھر دھتکار، اکثریت یہی کام کرتی ہے۔
کسی کے تن پر گرم کپڑے نہیں تو کوئی کھلی چپل میں کھڑا نظر آتا ہے۔ پیشہ ور بھکاریوں کی بات بھلا کون کرتا ہے۔ ان سفید پوشوں کا کیا؟ جو ہاتھ نہیں پھیلاتے مگر مدد کے طلب گار ہیں:
بھوک پھرتی ہے میرے ملک میں ننگے پاؤں
رزق ظالم کی تجوری میں چھپا بیٹھا ہے
شدید سردی کے دن قیامت خیز ثابت ہوتے ہیں ان لوگوں کے لیے جو گرم لباس خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ اسلام آباد کی خوبصورتی میں پہلی بار کچھ ایسے درد دل والے اور شائستہ لوگوں کو دیکھا جنہوں نے خاموشی سے ایک ایسا آئیڈیا جنریٹ کیا جس نے بہت نہ سہی مگر کسی حد تک لوگوں کو اس بات کا احساس دلایا۔
ایک ایسی دیوار جس پر تنی رسیاں اور سلیقے سے ٹانکے گئے پرانے گرم کپڑے۔ نہ کوئی سیلز مین اور نہ ہی کوئی رکھوالا۔ پہلے پہل تو ذہن اس بات کو سمجھنے سے قاصر رہا آخر یہ معاملہ کیا ہے؟ ۔ مگر روزانہ اس بات کو محسوس کرنے پر جب معلوم پڑا کہ یہ "دیوار مہربانی " ایک ایسا concept ہے جس کے تحت ہاتھ اور سوال دراز کئے بنا بنیادی چیز پہنچ جاتی ہے۔ نہ لینے والے کو علم کہ اس کا محسن کون ہے نہ دینے والے کو خبر کہ اس کا رکھا لباس کس کے کام آیا۔
کچھ عرصہ قبل ہی کی تو بات ہے جب کراچی میں نامور ستاروں کے علاوہ عام افراد کے اندر یہ سوچ پنپی، کہ وہ بچے جو ننھے ہاتھوں میں کچرے کا بیگ اور آنکھوں میں حسرت لیے اسکولوں کے باہر سے گزرتے ہیں یا پھٹی کتابوں اور کاپیوں کو دلچسپ حیرت سے دیکھتے ہیں، انکی تعلیم کا بھی کچھ بندوبست ہونا چاہیے۔ اسکول کے لئے عمارت نہ سہی، بیٹھنے کے لئے بینچ نہ سہی مگر جزبہ تو موجود ہونا چاہیے۔ سو بچوں کو شہر کی فٹ پاتھ پر ہی علم بانٹنا شروع کر دیا-
22 کروڑ کی آبادی کے حامل۔ پاکستان میں 20 ملین لوگ ایسے ہیں جن کے پاس گھر نام کی کوئی ایسی چھت نہیں جو عزت اور تحفظ کا باعث بن سکے، بھلا ہو تحریک انصاف کی حکومت کا، جس نے شیلٹر ہوم بنا کر بہت سو کو نہ سہی مگر چند لوگوں کو پناہ دی۔ مگر یہ آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس concept کو وسیع کیا جائے۔"دیوار مہربانی" صرف گرم لباس ہی نہیں ہر موسم میں حاجت مندوں کی ضرورت کے مطابق رہنی چاہیے۔
مہربانی کی بہت سی شکلیں ہیں۔ جو کسی مقروض کا قرض ادا کر کے بھی ہو سکتی ہے تو کسی بھوکے کو کھانا دینے سے بھی ادا ہو سکتی ہے۔ سب سے آسان تو تکلیف اور دکھ میں مبتلا شخص کی دلجوئی ہے۔ اس سے بڑی مہربانی کیا ہو گی۔
بے شک اللہ بڑا مہربان ہے۔ مگر مہربانی کی صفت اس کے بندے اپنائے اس کا بڑا اجر ہے پھر چاہے وہ مہربانی دیوار پر ہو یا کسی فٹ پاتھ پر۔