'اوئے ' جیسا لفظ سننے میں ہی بد مزہ ہے۔ کسی کو بلانے کے لئے یا بات کو آگے بڑھانے میں بھی یہ لفظ ایک ہی طرح کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایسی گفتگو میں یا تو جہالت کا عنصر نمایاں ہوتا ہے ورنہ بد تہذیبی کا گمان۔ ایک اور پہلو، اپنے وجود پر گھمنڈ ہونا ہے۔ اور ان دنوں ہر دوسرے شخص میں یہی وائرس نارمل مقدار سے کہیں زیادہ ہے۔ دلچسپ بات یہکہ جس میں خوردبین سے کچھ نا ملے اس میں بھی گھمنڈی پن رچا ہوا ہے۔
تمہید طول نہ پکڑ لے، جناب قصہ کچھ یوں ہے۔ سگنل سے کچھ فرلانگ کے فاصلے پر ٹریفک پولیس کا باوردی جوان کھڑا تھا۔ ٹریفک کی روانی برقرار رہے اس لئے کچھ سختی کر رہا تھا۔ سب کو تیر کی طرح سیدھا کیا۔ قطار بنوائی۔ کسی کے ہارن کی پرواہ نہیں۔ ہاتھ میں چالان بک اور ڈانٹ ڈپٹ الگ۔ مجال ہے کوئی اپنی جگہ سے سرکا بھی ہو۔ بائیں اطراف سے ٹریفک کلیئر کروائی اور دائیں طرف کو مڑا۔ اشارہ کیا کرتا، ہارن پہ ہارن، قطار میں چھوٹی بڑی گاڑیوں کو منہ چڑاتی لگژری کار سیدھا جوان کے سامنے بریک لگا چکی تھی۔ قطار میں لگے معصوم اس انتظار میں تھے کب پولیس اہلکار اس نیم پاگل گھمنڈی کی طبیعت درست کرے گا اور واپس لائن میں لگوائے گا۔
کار والے کا گھمنڈ تو کیا ٹوٹتا۔ وردی والے کا اپنا غرور زمین پر پڑے ریت کے ذروں کی مانند بکھر گیا۔ (جس تن پر بھی وردی ہو اس پر غرور تو جچتا ہے پھر چاہے فوج ہو یا پولیس)۔ 'اوئے وردی والے، فلاں راستہ کس طرف سے نکلے گا'؟ جواب آیا۔ 'جناب، بالکل سیدھا چلے جائیں۔ 'مڑ کر دیکھا تو کسی نے رتی بھر پرواہ نہیں کی۔ کوئی موٹر سائیکل والا سامنے سے گزرا تو کسی کار والے نے ہارن بجا کر اپنا راستہ لیا۔
یہ رویے اب اس تناور درخت کی طرح ہیں جنہیں کاٹنا آسان نہیں۔ قصور وردی کا نہیں، ذہن میں اٹھنے والے بھاری اور پریشان کن سوالات کا ہے۔ جن کا بوجھ اٹھانا قدرے مشکل ہے۔ جیسے کہ کہیں یہ بڑے صاحب کا کوئی قریبی دوست نا ہو۔ اتنا گھمنڈ ہے یقینا اثرو رسوخ والا ہو گا۔ ایسا نا ہو میری وردی اتروا دے۔ اور نا جانے کون کون سے سوالات۔
فرض کیا، ایسا کچھ نا بھی ہو تو بھی اس میں چند اہلکاروں کی پے در پے ایسی غلطیاں شامل ہیں جنہوں نے عوام کے اندر اس عمومی رویہ کو جنم دیا۔ اس کی ایک مثال تہواروں پر دیکھنے کو ملتی ہے۔ جان بوجھ کر چالان یا پھر کم پیسوں میں جیب گرم کر دی جائے۔ ایسے میں کوئی خال ہی رعب میں آئے گا۔
قانون کی عمل داری یقینی بنانے والے باوردی جوانوں کا حال بھی پتلا ہے۔ جنہیں دیکھ کر تو شریف آدمی ویسے ہی راستہ بدل لیتا ہے۔ بدمعاش کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیا مضحکہ خیز بات ہے ورنہ تہذیب یافتہ، سلجھیاقوام میں پولیس اہلکار کوآتا دیکھ کر شریف آدمی کی چھاتی تحفظ کے خیال سے کئی انچ چوڑی ہو جاتی ہے جبکہ بدمعاش چھپنے کا راستہ تلاش کرتے ہیں۔ جب پولیس اہلکاروں کی اکثریت سو پچاس پر اکتفا کرنے لگے تو پھر کونسا قانون اور کیسا خوف۔
وردی کا رنگ کوئی بھی ہو۔ جس تن پر ہوتی ہے اسے مغرور کرتی ہے۔ لیکن ایسا برتاو ہر وردی والے کے ساتھ ہو، ضروری نہیں۔ وردی میں ملبوس سرحد پر حفاظت کرنے والے جوان کی عزت ملک کے ہر کونے میں ہے۔ اس سے تحفظ کا احساس اجاگر ہوتا ہے۔ مشکل میں آن کھڑا ہو گا، ، اس بات پر کامل یقین ہوتا ہے۔ تازہ مثال کرونا وبا میں لاک ڈاؤن پر عمل درآمد بارے ہے۔ جب کسی فورس سے عوام الناس قابو نا آسکے تو فوج بلانے کا اعلان کر دیا گیا۔
ہر مشکل وقت میں فوجی ہی کیوں؟ وہ میرٹ پر بھرتی ہوتا ہے۔ ٹریننگ کا پورا مرحلہ سخت اور ڈسپلن پر مشتمل ہوتا ہے۔ سفارش کا کلچر فوج میں نہیں۔ سخت جان بنا دیا جاتا ہے۔ کسی بھی قسم کے حالات میں کام کرنے کو ہر دم تیار رہتا ہے۔ لیکن یہ کوئی الگ مخلوق تو نہیں جو اچانک آسمان سے آ ٹپکتی ہے۔ ایک فورس ہی تو ہے اس سے زیادہ کیا؟ ایک پولیس اہلکار بھی عوام کی جان و مال کے تحفظ کے لئے قربان ہوتا ہے۔ قانون کا احترام یقینی ہو اس کے لئے کام کرتا ہے۔
ایک ٹریفک کا اہلکار بھی تو دھوپ چھاؤں، سردی گرمی میں جلتا ہے۔ موسم کی سختی کی پرواہ کئے بغیر سڑکوں پر ٹریفک کو رواں دواں رکھتا ہے۔ متعدد مرتبہ قانون توڑنے والوں کے ہاتھوں زخم کھاتا ہے۔ یہ سب چیدہ مثالیں ہیں کیونکہ اکثریت میرٹ کی بنیاد پر نہیں سفارش پر بھرتی ہوتی ہے۔ جن کا کام افسر کو راضی رکھنے کے سوا کچھ نہیں۔ اسی واسطے قانون توڑنے کی سزا سو پچاس سے آگے نہیں بڑھتی۔ کوئی بدمعاش کیا وصولی کرتا ہو گا جو سفارش پر بھرتی اہلکار کرتا ہے۔ کسی سے جیب گرم اور کوئی پیٹ کی بھوک مٹانے کا سامان کرتا ہے۔
ٹریفک اور تھانے میں بھرتی کا وہی گلا سڑا سسٹم، کوئی چیک نہیں، کوئی اصلاحات نہیں، میرٹ کی دھجیاں، جواب طلبی کا رواج نہیں۔ غلطی پر سزا کا کوئی کلچر نہیں۔ فٹنس کا کوئی تصور نہیں۔ اکثریت کے جسم پر منوں کے حساب سے چربی۔ وردی نیلی ہو، سفید یا خاکی، ہر رنگ میں حسین اور قابل عزت ہے۔ عزت ملتی نہیں، ہمیں خود کمانا پڑتی ہے۔ جب کردار بلند ہوں، سوچ بڑی ہو اور تن پر یونیفارم سجائے جوان فرض شناس ہو تو پھر کوئی خوف چھوکر نہیں گزر سکتا۔ پھر کسی فراٹے بھرتی کار میں بیٹھا شخص جرات نہیں کر سکتا کہ یہ کہہ سکے۔ ' اوئے وردی والے '-