"کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے، کوئی گریس ہوتی ہے-" یہ میں نہیں کہ رہی بلکہ ن لیگی رہنما خواجہ محمد آصف کے وہ الفاظ ہیں جن کا استعمال اسمبلی فلور پر انہوں نے اپنے مخالفین کے لئے کیا تھا۔ ویسے سیاست دانوں کی اکثر جملے بازی کسی حد تک سبھی کو یاد رہتی ہے، مگر کسی کو کیا معلوم تھا، یہ الفاظ ہر طبقے کے عوام کو ازبر ہوں گے اور ذہنوں پر نقش رہیں گے۔
مجھے یہ جملے اس تحریر کے دوران یاد نہیں آئے بلکہ بہت دنوں سے ذہن میں گردش کر رہے تھے۔ ہوا کچھ یوں، آزاد کشمیر الیکشن ہونے سے چند روز قبل مسلسل سیاسی صورتحال میں تبدیلی رونما ہو رہی تھی۔ کبھی کوئی رہنما دوسری پارٹی کے لئے خدمات دینے کو تیار ہو رہا تھا اور کہیں اخلاقیات سے گرے جملے مخالفین پر دونوں اطراف سے کسے جا رہے تھے۔ مہاجر سیٹوں پر تناسب کیا رہے گا؟ ہم نے راولپنڈی سے پیپلز پارٹی کے امیدوار چوہدری فخر الزمان گل کو پروگرام مقابل میں شرکت کی دعوت دے ڈالی۔ اب چوہدری صاحب ٹیلی فون لائن پر ساتھ تھے۔ ایک کے بعد دوسرا سوال، لیکن چوہدری صاحب کی ایک بات سن کر نا صرف میرے کان کھڑے ہوئے بلکہ مجھے سیاست دانوں کی سوچ پر افسوس بھی ہوا۔۔
ضرورت پیش آئی تو پیپلزپارٹی" ن لیگ " کے ساتھ مل کر آزادکشمیر میں مشترکہ حکومت بنا لے گی۔ باوجود اس بات کے، ان کے لیڈر بلاول بھٹو ن لیگ کے خلاف الیکشن مہم میں ہر حد سے گزرے۔ چوہدری فخر کے مطابق "سیاست میں کوئی حرف آخر نہیں "-سیدھا مطلب، کوئی شرم نہیں، کوئی حیا نہیں، کوئی گریس نہیں۔
ویسے تو کسی میں بھی یہ خصوصیات نظر نہیں آتیں، مگر کوئی سیدھا منہ پر ہی دھڑلے سے یہ کہہ جائے گا۔ کہ اپنا پردہ ہی نہ رہے۔ ووٹر اور سپورٹر اپنا ہی سامنا نہ کر سکیں اس پر افسوس ہوا۔ ایک عام اصطلاح ہے۔ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا لیکن کوئی شرم، لحاظ بھی نہیں ہے۔ جن کے بارے چن چن کر گھٹیا جملے سر بازار کہے جاتے ہیں، وہی بوقت ضرورت دلدار ٹھہرتے ہیں۔
سب جانتے ہیں، جو نہیں جانتے ان کے لئے سوشل میڈیا ثبوتوں کے ساتھ موجود ہے کہ کیسے بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے ایک دوسرے کی حکومتوں کے دھڑن تختے کئے۔ کیا کیا چالیں چلیں۔ اور ان کے چاہنے والے عوام نے ایک دوسرے پر ہر سطح کا کیچڑ اچھالا۔ پھر ایسا ہوا کہ دونوں ایک ہوئے۔ ہر الزام سے بالا، دونوں اطراف سے گفتگو میں موتیوں کی برسات ہوئی۔ وجہ اور مقصد ایک ہی تھا۔ جنرل پرویز مشرف کو اقتدار سے نکال باہر کرنا۔ عوام پھر بیوقوف بنے۔ سیاست دان تو ایک دوسرے کو گالیاں دینے کے بعد بھی ایک ہی ٹیبل کے گرد بیٹھ کر چائے کافی پی لیتے ہیں مگر بیچارے مخالف عوام ایک ٹھیلے پر بھی ساتھ کھڑا ہونا پسند نہیں کرتے۔
پھر ان آنکھوں نے یہ نظارا بھی دیکھا۔ شہباز شریف کراچی تشریف لے گئے۔ آصف علی زرداری سے ملاقات کی۔ مگر یہ کیا، چہروں پر مسکراہٹ، اور کمر میں تکریم سے نکلا خم اس حد تک کہ رکوع کا گمان۔ ملاقات خوشگوار رہی۔ ساتھ مل کر حکومت کے خلاف لڑنے کے وعدے وعید ہوئے۔ مگر ان کانوں نے تو دعووں کی ایک لمبی داستان سن رکھی تھی کہ شہباز شریف نے سوئس اکاؤنٹس سے ملک کا پیسہ واپس دلانا ہے۔ آصف علی زرداری کا پیٹ پھاڑ کر قوم کو ان کا پیسہ دلانا ہے۔ سڑکوں پر گھسیٹنا ہے۔ پھر ان آنکھوں نے یہ منظر بھی دیکھا کہ جوش میں ہر بار ہوش کھو جانے کی معافی مانگی گئی۔ یہاں بھی جیالے اور متوالے ہی ذلیل و رسوا ہوئے۔ اب لیڈروں کے عمل کی صفائیاں خاموشی اور منہ چھپا کر دیں۔ زبان ایسے کہ گنگ ہو جائے۔
کسی ایک سیاسی جماعت یا لیڈر کے بس کی بات نہیں تھی کہ تحریک انصاف کو گھر بھیجا جا سکے۔ نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد عمران خان کے ساتھ تھی اور بلاشبہ ہے۔ اسی لیے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے سیاسی اتحاد بنا لیا گیا۔ بنیادی قوت پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے باہم اتحاد نے بخشی۔ یہاں بھی ماضی کا کھیل دہرایا گیا۔ کبھی وعدے وعید ہوئے۔ کبھی مریم نواز اور بلاول بھٹو ایک ہی دستر خوان کے گرد بیٹھے۔ دن رات سر جوڑ کر حکمت عملی مرتب کی جاتی رہی۔ سٹیج شیئر کئے گئے۔ مگر اندرون خانہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کو زیر کرنے کا سوچتی رہیں۔ ایک معروف خاکہ اکثر لوگوں کو یاد ہو گا کہ دو لوگ ایک دوسرے سے بغل گیر ہیں مگر دونوں نے پیٹھ اطراف چاقو چھپا رکھے ہیں۔ یہاں بھی یہی مثال صادق آتی ہے۔ جو ہونا تھا ہو کہ رہا۔ اتحاد سینٹر شپ کی ایک سیٹ پر ہی پارا پارا ہو گیا۔ نفرت کا یہ زہر زبانوں پر کتنا تھا، آزاد کشمیر الیکشن میں دیکھنے کو ملا۔ پارٹیوں سے منسلک دکھیاری عوام یہاں بھی عزت بچانے کو سو طریقے ڈھونڈتی رہی۔
نتیجہ یہ نکلا۔ کاہے کا افسوس! بڑے بڑے سیاسی لوگ یہ جرات نہیں کر سکے۔ چوہدری فخر الزمان گل نے بنا کسی تامل کے جو کہا وہ سچ ہے۔ سیاست دان کیسے اپنا داو بدلتے ہیں۔ تاریخ بھری پڑی ہے۔ سیاست دانوں کے اعمال واضح ہیں کہ سیاست میں کوئی حرف آخر نہیں۔ یہ تو بس جملے بازی کی حد تک چست ہے کہ کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے، کوئی گریس ہوتی ہے۔
ہر پیشہ ور اپنا کام کرتا ہے۔ سیاست بھی تو ایک پیشہ ہی ہے۔ اور سیاست دان اپنا کام ہی تو کرتا ہے۔ عوام کو الجھا کر رکھتا ہے۔ ایک ماہر فریبی کی طرح فریب کرتا ہے۔ تاکہ ووٹر کسی اور کا سپورٹر نہ بن بیٹھے۔ ایک دوسرے کے مخالف جذبات ابھار کر رکھتا ہے۔ حتی کہ کارکن سر پر خون تک سوار کر لیتے ہیں۔ ہر بار ایسا ہوا اور ہوتا رہے گا۔ کارکن نفرت میں جانیں دیتے اور لیتے رہیں گے۔ اور پیشہ ور سیاست دان اپنی نوکری پکی کرتا رہے گا۔