کہا جاتا ہے کہ سب سے بڑا بحران جو آئندگی کے اندھے کنوئیں میں پڑا ہے وہ پانی کا ہے۔ دنیا ابتدائے آفرینش سے پانی کی "تریہہ" کے لئے تڑپتی رہی ہمارا تو پورا ایک اسلامی مہینہ محرم الحرام پانی کی پیاس ایمان کی تازگی اور صبر سے مضمون ہے مگر ہماری موجودہ اسمبلیوں کا حال یہ ہے کہ اس قلت کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو نظر انداز کئے ہوئے آپسی لڑائی جھگڑوں اور بیان بازی پر زور ہے۔
دو روز پہلے سندھ اسمبلی میں اس موضوع کی نزاکت کو نظر انداز کئے صوبائی وزیر آبپاشی کے تندوتیز بیانات اور صوبائی عناد کو مرکزی مفاد پر ترجیح دی گئی پنجاب سے بھی جوابی بیان بازی ہوئی ذرا اس کی تفصیل میں جا کر دیکھا تو پتہ چلا کہ "ارسا" ایک خود مختار ادارہ ہے جو پانی کی تقسیم و تدوین کا ذمہ دار ہے۔ یہ ادارہ پانی کی کمی بیشی کی صورتحال کو واضح کرتا رہتا ہے اس سال بھی اپنے حساب کتاب سے اس نے 10 فیصد پانی کی کمی کا پیغام دیا تھا لیکن دریا کہاں کسی کے کہنے میں ہیں۔ ان کے اپنے ہی بہاؤ کے قرینے اور اپنی ہی چال ہوتی ہے لہٰذا یہ کمی 20 فیصد تک چلی گئی وطن عزیز میں پانی کی تقسیم 1991ءکے واٹر اکارڈ کے مطابق کی جاتی ہے۔
رواں خریف کے موقع پر پنجاب کو 22 فیصد کمی کا سامنا رہا اسی طرح سندھ کی جانب سے 39 فیصد پانی کی کمی کا نقصان تخمینہ کیا جا رہا ہے۔ سندھ کے اس مبینہ پانی کے زیاں کے بموجب دیگر صوبوں کو مزید آبی کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جبکہ پنجاب کے انڈس زون میں 2 فیصد اضافی پانی دریاؤں میں رپورٹ ہو رہا ہے سندھ میں نہروں کا کل رقبہ محض چھ سو میل ہے جبکہ سندھ کے متضاد پنجاب میں نہری علاقہ کم و بیش 36 سو میل ہے یاد رہے کہ محکمہ انہار یا آبپاشی و دیگر متعلقہ ٹرم میں ابھی تک نہری نظام کو میلوں ہی میں بنایا ہے کوسوں میں بھی ہو سکتا ہے مگر ہم بھی ہولے ہولے ترقی کر ہی رہے ہیں ایسی نادر معلومات ہمیں کہنہ مشق سیاستدان جناب محسن لغاری صاحب نے بیان کیں جو کہ اپنی ذاتی حیثیت میں صحافیوں کے درمیان ایک ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ وہ اپنی شستہ گوئی اور دھیمے لہجے کی پہچان رکھتے ہیں بہرحال ایشو چونکہ ملکی لیول کا ہے اور پانی کی تقسیم پر تو دنیا کے ماہرین کا خیال ہے کہ اگلی جنگ عظیم ہو گی مگر ہمارے ہاں یہ جنگ پیشگی چھڑی ہوئی ہے کہ ہمیں جنگ عظیم سے کیا ڈرنا ہم تو خود ہی ایک دوسرے کے لئے کافی ہیں۔
فرض شناس لوگوں کی بھی کمی نہیں جو قافلے سے الگ اپنا ہی کام کرتے رہتے ہیں قومی نوعیت کے معاملات کو اہمیت دیتے ہیں۔ اساتذہ نے تو کہا....
تجھ کو پرائی کیا پڑی
اپنی نبیڑ تو
تو احمد فراز نے حرف آخر کہہ دیا
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
مثل مشعل ہماری ثمن رائے (ڈی جی پی آر) کام کرتی رہتی ہیں آرٹ سے خاصی نسبت ہے مگر صحافت میں بھی پوری ہیں۔
محسن لغاری صاحب درد دل رکھتے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ لسانی بنیادوں مذہبی بنیادوں تو کبھی ثقافتی و سماجی بنیادوں پر اتنے بحران آتے رہتے ہیں کہ ملک پانی کی تقسیم کے مسئلے پر صوبوں کی تقسیم کا متحمل نہیں ہو سکتا اگر اس مقصد کے لئے خصوصی ادارہ "ارسا" بنا ہے تو وہ پنجاب میں ربیع کی فصل کے تحفظ کے لئے منگلا میں سٹور پانی منصفانہ تقسیم پر بانٹے وگرنہ پنجاب کا کاشتکار جو پہلے بھی زیادہ خوش نہیں بہت پریشانی کا شکار ہو گا۔
ارسا نے 8000 کیوسک اضافی پانی منگلا سے سندھ کے لئے چھوڑنے کا فیصلہ رواں مئی ہی میں کیا ہے جو پنجاب کے لئے زہر قاتل ہے۔ تقاضا جو کیا جا رہا ہے اور جس پر عمل درآمد ضروری ہے وہ یہ ہے کہ خصوصی انسپکٹرز کی تعیناتی و ڈیوٹی بٹھائی جائے جو کہ مبینہ یا واقعتاً پانی کے سندھ میں زیاں کا سچا سچا جائزہ لیں۔
اب جو صرف آخر اصلی رونا ہے وہ ہی حاصل مضمون ہے کہ ہم ڈیم بنا پائے نہ بنا رہے ہیں اور نہ ہی شاید بنا سکیں کہ نااتفاقی خشک سالی و قحط سالی کی سب سے بڑی بنیاد ہوا کرتی ہے.... پانی کے مسئلے پر سیاست کا بھی سب سے بڑا سامنا سندھ کی جانب سے کرنا پڑتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ پنجاب کی روشن خیالی تعلیمی ترقی اور کھلے دل کا ہر کوئی معترف ہے جبکہ سندھ کے دگرگوں حالات غریب ترین اندرون سندھ لوگوں کا پرانی رسوم و رواج اور کچی سڑکوں پر سیاسی میری پیری مریدی کا شکار ہونا سندھی سیاست دانوں کے بہت حق میں ہے۔
وہاں کی پسی ہوئی مخلوق کو مزید زمین بوس کرنا ہی عاشقانہ طرز سیاست و پوجا پاٹ کو مرغوب ہے شعور اور آ گہی مخصوص طرز سیاست کو نہیں بھا سکتی....
ڈیم کی سب سے زیادہ مخالفت جب سندھ کی وہ خواتین سیاست دان کرتی ہیں جنہیں محض جامہ زیبی و سرمہ و غازہ سے مطلب ہے تو حیرت نہیں محض حماقت کا تسلسل ہے کہ یہ قافلہ حماقت خشکی کے صحرا کو جا رہا ہے جبکہ حقیقی صحرا "تھر" واقع سندھ سوکھی ہوئی ہڈیوں اور ابلی ہوئی آنکھوں والے نیم مردہ بچوں اور گھونگھٹ میں چھپی ان گنت بے بس ماؤں کا دیس ہے اس پر بھی رحم نہیں کھایا جاتا تو پورا ملک کیوں "تھر" بنایا جا رہا محترم ثاقب نثار تو نکل لئے اب جو باقی ہیں وہ بھی تیار بیٹھے ہیں بلبلیں بھی چہکنا بند کر دیں گی شوقین مزاج اپنا الاپ ختم کر چکے ہوں گے ڈیم نہ بنانے کی غلطی آنے والی دو چار نسلیں ہی بھگتیں گی کہ باقی یہ دیکھنے کو باقی ہی نہ ہوں گی....
آئے کوئی مسیحا جو ہر چھوٹے بڑے ایشو پر بک جانے والوں کو سرف نظر کرتا ہوا ڈیم بنا ڈالے پوری قوم عوامی سطح پر اس کے ساتھ ہو گی اگر وہ اپنے اس چند روزہ اقتدار کے چھننے کے خوف میں نہ ہو تو....
سب سے پہلے کرشن چندر کا افسانہ پانی کا درخت پڑھا تو چودہ طبق روشن ہو گئے پانی کی کمیابی کیا ہوتی ہے سمجھ میں آیا۔ مستنصر حسین تارڑ کا "بہاؤ" و بے شمار تحریروں میں ایک ہماری بھی سہی "خدارا ہوش کرو...."