چند نو جوان کھلی جگہ پر نصب اینٹی ائیر کرافٹ کی طرف دوڑتے گئے اور چند گولے فائر کیے جہاز کی چند منٹ تک آواز آتی رہی پھر دو دھماکے ہوئے اور پھر سکوت چھا گیا۔ معلوم ہوا کہ یہ روسی طیاروں کا ایک معمول ہے روزانہ آتے ہیں۔ پہاڑوں پر چند بم گراتے ہیں اور چکر لگا کر چلے جاتے ہیں۔ مجاہد کہنے لگا شاید یہ ہمیں اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔ اب امریکی اپنے وطن لوٹ گئے ہیں۔ صدر بائیڈن دنیا بھر سے تنقید اور لعن طعن کو سمیٹ کر اعلان کر رہے ہیں کہ امریکہ آئندہ کسی بھی ملک میں جاکر ایسی کارروائیاں نہیں کرے گا۔ ان کی تقریر امریکی قیادت کی کم عقلی اور دور اندیشی کے فقدان کا اعلان کر رہی ہے۔ اگر بش نے وقتی اشتعال میں آکر امریکہ کو بے مقصد جنگ میں جھونکا تو اوباما، ٹرمپ اور بائیڈن کی سمجھ میں کیوں نہیں آیا، وہ کس امید پر پیسہ اور انسانی جان جھونکتے جارہے ہے۔ جو بات 20برس بعد جسم اور دماغ پر سوار ہونے والی تھکن نے سمجھائی وہ تاریخ کی کتابوں اور ویت نام کے انجام سے بھی سمجھ آسکتی تھی۔ حماقت یا بد دماغی پر کسی قوم کا اجارہ تھوڑی ہے۔ بعض لوگ تو اب بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ امریکہ کا نکلنا عظیم غلطی ہے۔
چین اور روس شادیانے بجارہے ہیں، تہران اور شمالی کوریا یہ نتیجہ اخذ کر رہے ہیں کہ ایک سپر پاور بھی اچانک اکتا سکتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ طالبان اپنے عمل سے افغانستان کو دنیا کے لئے کتنا فرینڈ لی بناتے ہیں۔ مغرب اور افغانستان کے پڑوسی ممالک میں روس اور چین کے ساتھ پاکستان، ایران اور ترکی بھی شامل ہیں۔ طالبان کی کس حد تک مدد کے لئے آگے بڑھتے ہیں اور طالبان وقت اور حالات کو سمجھنے میں کتنی ذہانت اور دوراندیشی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
طالبان کو تاریخ کا یہ سبق یاد رکھنا چاہئیے کہ جس قوم میں عقل اور دانش نہیں ہوتی اس قوم کی قسمت میں معجزے نہیں ہوتے۔ امریکی صدر نے افغانستان سے پسپائی کی ہزیمت اور لعن طعن اپنے سر لی۔ لیکن بقول ان کے 20برسوں سے 300ملین ڈالرز روزانہ کے اخراجات کی تباہی اور بربادی سے امریکہ کو بچایا لیکن وہ اپنی وضاحت میں امریکی قوم کو یہ نہیں بتاپائے کہ جس ساڑھے تین لاکھ افغان فوج پر بھروسہ کر رہے تھے کہ وہ طالبان کے خلاف مضبوط دیوار ثابت ہوگی، آخر اس کی طاقت اور ڈسپلن پر کھنے کے لئے انہوں نے اسے کس آزمائش سے گزارا۔ وہ لاکھ اشرف غنی اور ان کے قابل بھروسہ ساتھیوں کو الزام دیں، امریکی صدر اس ذمہ داری سے کیسے بری الذمہ ہو سکتے ہیں۔ مانا کہ بائیڈن اپنی آئندہ آنے والی نسل کو اس بے مقصد جنگ میں جھونکنا نہیں چاہتے تھے ا، اگر انہیں انسانی ہلاکتوں اور مالی وسائل کے ضیاع کی اتنی ہی فکر تھی تو سمجھ نہیں آیا کہ اس "پنگے" میں پڑنے کی ضرورت کیا تھی۔ اور اس 20سالہ جنگی ڈرامے کا کلائمکیس تو یہی ہے کہ امریکہ افغانستان میں طالبان پر دہشت گردی کا الزام لگا کر جس طرح اپنے اتحادیوں کے ساتھ ان پر چڑھ دوڑا تھا۔ بالآخر اب افغانستان کو طالبان کے حوالے کر کے پرواز کر گیا ہے۔ جب ہمارے پڑوس میں طالبان کابل میں داخل ہورہے تھے، اس وقت ہمارے وزیر خارجہ ملتان میں شہری مسائل کے حل کے لئے اپنے حلقے میں ووٹرز کو تسلی دے رہے تھے، وزیر اعظم اگر نظر رکھتے تو وہ محققین اور مورخین اور اہم سفارتی عہدیداروں سے گفت و شنید کرتے، صاحب علم لوگوں سے دریافت کرتے کہ یہ منظر یکدم کیونکر بدل گیا اور نئے حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہئیے۔ ذرا غور فرمائیے، افغانستان میں حالات کروٹ لے رہے ہیں۔ ساتھ ساتھ پاکستان میں سیاست کی نئی لہریں اٹھ رہی ہیں۔ بے نظیر بھٹو کے دورمیں نصیر اللہ بابر نے مجھے یہ بتا کر حیران کر دیا تھا کہ افغانستان کی سیاست اور وہاں آنے والی تبدیلیاں کتنے حوالوں سے پاکستان پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جب 1973ء میں سردار داؤد نے ظاہر شاہ کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔
ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد کراچی کے اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں گفتگو کے دوران انہوں نے بتایا تھا کہ سرداؤد نے سرحدی علاقوں میں ایسی تحریکوں کوہوا دینے کی کوشش کی تھی جو پاکستان کے مفاد میں نہیں تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں خود بلا کر ہدایت کی کہ ہم نئی افغان حکومت کے سوشلسٹ نظریہ اور سوویت یونین سے قربت کے سبب افغانستان میں اسلام پسند نوجوانوں کی تحریک کو بالواسطہ مدد دیکر سردار داؤد کی پاکستان کے خلاف حکمت عملی کا جواب دے سکتے ہیں، انہوں نے اس حوالے سے تاجک نوجوانوں کو سپورٹ کرنے کے لئے کہا۔ یہ وہ دور تھا کہ جب اسلام پسند نوجوانوں کے احتجاج کا مرکز کابل یونیورسٹی تھی جہاں نوجوان سوشلسٹ نظرئیے کے خلاف علم بغاوت بلند کررہے تھے۔ جب اس بغاوت نے شدت پکڑ لی تو سردار داؤد کی حکومت کے لئے کئی مشکلات کھڑی ہو گئیں اور انہوں نے بھٹو کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا۔ اور ڈیورنڈلائن کے حوالے سے پاکستان کے موقف کو تسلیم کر لیا گیا۔ ابھی ہم یہ دیکھتے ہیں کہ افغانستان میں ملا عمر کی سر گردگی میں قائم ہونے والی حکومت نے کہاں پر کیا غلطیاں کی تھیں۔ جن کی لہریں اور اثرات ابھی تک دکھائی دے رہے ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ دنیا پیچھے مڑ مڑ کر طالبان کو بار بار کیوں باور کرراہی ہے کہ انہیں اپنے عمل سے ثابت کرنا ہوگا کہ وہ جو خوشنما بیانات دے رہے ہیں اس پر کس درجے عمل در آمد کراتے ہیں۔
ہم بھی سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کو شریعت کی پابندی اور اسلامی نظم عدل کے نفاذ کی حمایت کرنی چاہیئے۔ جو ایسا کرتا ہے ہمیں اس کا ساتھ دینا چاہئیے۔ ہم ملاعمر کے دور میں بھی یہی کہتے تھے کہ نماز پڑھنا، داڑھی رکھنا اور جرائم کو روکنے کے لئے اسلامی تعزیرات نافذ کرنا ہر گز غلط نہیں۔ مانا کہ ملا ہیبت اللہ، اخوندزادہ اور ملا برادر اور ان کے ساتھیوں نے وقت، حالات اور تاریخ سے بہت کچھ سیکھ لیا ہو گا۔ اب وہ غلطیاں نہیں ہوں گی جو ملا عمر کے دور میں روارکھی گئیں۔
میں سوچنے لگا کہ جب ہم لوگوں سعودی عرب میں ہوتے ہیں تو ہم مسجد نبوی اور خانہ کعبہ کے صحن میں تمام مسالک کو اکھٹے نماز پڑھتے دیکھتے ہیں۔ میرا کہنا یہ ہے کہ حکومت ملا عمر کی ہو یاہیبت اللہ اخونزادہ یا خود ہماری اگر یہ سب ریاست مدینہ بنانا چاہتے ہیں تو حکمران رسول اللہ کی سنت پر عمل کریں۔
یہ لوگ نبی آخر زماں اور خلفائے راشدین کی طرح ریاست کی بنیاد رکھیں۔ جس میں امن ہو، روزگارہو، سکون ہو، مساوات ہو، عدل ہو، خوشحالی ہو، علم ہو دنیا کی تمام سہولتیں لوگوں میں مساوی تقسیم ہوں۔ اسلامی ملک کرائم فری زون ہوں متمدن اور پرسکون ہوں۔ یہ نظام کہیں بھی کوئی بھی قائم کرے گا دنیا اس کی ہو جائے گی۔ دھمکانے او رللکارنے سے آپ کے اپنے بھی دور ہو جاتے ہیں اپنے کردار، اپنی ذہانت، دور اندیشی اور اپنے ہر عمل میں راسخ العقیدگی سے خود کو منوانا ہوگا یہی ریاست مدینہ کا ماڈل ہے۔