2018ء میں سینیٹ الیکشن کے دوران "ضمیرفروشی "کی ویڈیو نے تہلکہ مچا دیا ہے۔ 2منٹ گیارہ سیکنڈ زدورانئے پر مشتمل ویڈیو میں عوامی نمائندوں کے سامنے نوٹوں کا ڈھیر لگا ہواہے۔ بھاؤ طے ہونے کے بعد نوٹ بیگ میں ڈالنے کے مناظر بھی ویڈیوکلپ میں دکھائے گئے ہیں۔ ضمیر فروشی کی یہ واردات بروز منگل وفاقی کابینہ کے سامنے بھی تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی۔ وزیراعظم نے نوٹوں کی چمک کے سامنے ضمیرفروشی کی واردات میں ملوث ہونے پر صوبائی وزیر قانون سلطان محمد خان کو عہدے سے ہٹانے کا حکم صادر فرمادیا۔ اسی ضمیر فروشی کے تدارک کیلئے وزیراعظم نے شوآف ہینڈز کے ذریعے سینیٹ الیکشن کروانے کا اعلان کیا مگر اپوزیشن کیساتھ اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے آئینی رکاوٹ دور ہونا باقی ہے۔ اگرچہ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں ضمیر فروشی پر حفظ ماتقدم کے طور پر خاموشی اختیار کی گئی۔ سوال یہ ہے کہ سینیٹ الیکشن کیلئے رقم وصول کرنا ہی صرف ضمیر فروشی اور قومی جرم ہے؟ کیا قومی اثاثوں کی منظم منصوبہ بندی سے بے توقیری اور عوام کو ثمرات سے محروم کرنا بھی ضمیر فروشی نہیں؟
پاکستان ریلوے نے یکم اکتوبر1973ء کو کچہری روڈ پی آئی ڈی سی کراچی کی عمارت کے بالمقابل 10ہزار207مربع گز زمین بینوولینٹ فنڈ آرگنائزیشن لاہور کو99سال کیلئے 3ہزار روپے سالانہ کے حساب سے لیز پر دی۔ بینوولینٹ فنڈ آرگنائزیشن لاہو ر نے 2 فروری 1974ء کو زمینـ، رضا ایسوسی ایٹس کو حیات ریجنسی ہوٹل کی تعمیر کیلئے سب لیز پر دیدی۔ حیات انٹرنیشنل کارپوریشن امریکا کے ساتھ فرنچائز اور مینجمنٹ معاہدے کے تحت حیات ریجنسی ہوٹل منصوبہ کراچی پراپرٹیز انویسٹمنٹ کمپنی کی جانب سے سپانسر کیا گیا۔ مختلف بینکوں سے قرض کے حصول کے بعد منصوبے کا آغاز 1974ء میں کیا گیا۔ 1977ء میں منصوبے کے معاملات کا جائزہ لینے کیلئے مارشل لا انکوائری شروع کی گئی جس کے باعث منصوبے پر تعمیراتی کام کو روکنا پڑا۔ اس وقت تک 70فیصد کام مکمل ہو چکا تھا۔ ایم ایل او کے آرٹیکل 5(i)کے مطابق ریلو ے زمین کی لیز اور سب لیز منسوخ کر دی گئی اور یہ تصور کیا گیا کہ زمین کو پاکستان ریلوے کی جانب سے 99سال کیلئے یکم جنوری 1993ء تک 2لاکھ81ہزار100روپے سالانہ کرایہ کی بنیاد پر لیزپر دیا گیا۔ 16اکتوبر1995ء کو وفاقی کابینہ کی جانب سے سوک سینٹر کمپنی کو 38کروڑ روپے کے عوض منصوبہ فروخت کرنے کی فنانس ڈویژن کی سفارشات کی منظوری دی گئی۔ سوک سینٹر کمپنی کی جانب سے 3کروڑ 80لاکھ روپے کی پیشگی ادائی کی گئی جبکہ بقیہ 34کروڑ20لاکھ روپے دس سال کی اقساط کی صورت میں ادا کرنے پر آمادگی ظاہر کی گئی۔ بینکوں کو قابل ادا مارک اپ کے حوالے سے تنازع کے باعث معاہدہ منسوخ کر دیا گیا اور کمپنی کو 3کروڑ 80لاکھ روپے واپس ادا کر دیے گئے۔
4اکتوبر2000ء کو وفاقی کابینہ کی جانب سے چیئرمین نجکاری کمیشن کو بینکوں کے کنسورشیم اور پاکستان ریلوے کی مشاورت سے منصوبے کے ڈھانچے اور آلات کے انتظامات کے حوالے سے حیات ریجنسی ہوٹل منصوبہ کا نگران مقرر کیا گیا۔ نجکاری کمیشن کی جانب سے پیش کی گئی سمری پر کابینہ کی نجکاری کمیٹی نے 16دسمبر2003ء کو نجی سیکورٹیز کمپنی کی کامیاب بولی کی منظوری دی۔ 24مئی2004ء کو نجی سیکورٹیز کمپنی کے ساتھ زمین کی99سال کی لیز کیلئے معاہد ہ کیا گیا۔ منصوبے کی مالیت 53کروڑروپے جبکہ پہلے دس سال کیلئے سالانہ کرایہ 5لاکھ66ہزار 745روپے مقرر کیا گیا۔ جس کی معیاد 23مئی2014ء کو مکمل ہو گئی۔ نجی سیکورٹیز کمپنی کی جانب سے پہلے دس سال کی تمام رقم ادا کی گئی۔ نجی سیکورٹیز کمپنی کی جانب سے2017ء میں موقف اختیار کیا گیا کہ کمپنی نے این سی ای ایل بلڈنگ مینجمنٹ کمپنی کی طرف سے زمین خریدی ـ، اس لیے این سی ای ایل بلڈنگ مینجمنٹ کمپنی کے نام این او سی جاری کیا جائے۔ اعلیٰ سطح اجلاس کے دوران وزیر اعظم نے ا ستفسار کیا کہ ریلوے کی زمین پر پانچ سال کی لیز کی حد کیوں مقرر ہے؟ لیز کی حد مقرر ہونے سے نئے منصوبوں میں رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور قبضہ مافیا کو زمین پر قبضہ کرنے کا موقع ملتا ہے۔ وزیر ریلوے نے وزیراعظم کو وضاحت دیتے ہوئے بتایا کہ سیکرٹری ریلوے کی جانب سے سپریم کورٹ میں موقف اختیارکیا گیا کہ ریلوے کی زمین صرف پانچ سال کیلئے لیز پر دی جاسکتی ہے اور سپریم کورٹ نے صرف اس مخصوص منصوبے کے حوالے سے لیز کو پانچ سال مقرر کرنے کا حکم دیا۔ وفاقی حکومت کی جانب سے اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر نہیں کی گئی۔ وزیراعظم نے وزیر قانون کو اس معاملے پر فوری طور پرسپریم کورٹ میں اپیل دائر اور سیکرٹری ریلوے کو لیز کی مدت کے حوالے سے حقائق پر مبنی رپورٹ سپریم کورٹ کو پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔
ایک قصہ عوام کے لیے درد دل رکھنے والے عوامی نمائندوں کا اور بھی سن لیں۔ وفاقی حکومت نے کورونا ویکسین درآمد کرنے والی کمپنیوں کو ڈرگ ایکٹ سے استثنیٰ دیتے ہوئے آئندہ چھ ماہ کیلئے ویکسین کی من پسند قیمت مقرر کرنے کھلی چھوٹ دیدی ہے۔ وفاقی وزراء کی جانب سے ویکسین درآمد کرنے والی کمپنیوں کو قیمت مقرر کرنے کی کھلی چھوٹ دینے کی مخالفت بھی کی گئی مگر کامیاب وہی وزراء ہوئے جنہوں نے بھارت سے ادویات درآمد کرنے کیلئے کابینہ کے فیصلے کا غلط استعمال کرکے وزیراعظم کیلئے پشیمانی کاباعث بنے۔
مہنگائی کی ٹکٹکی پر بندھاغریب ریاست مدینہ کی راہ تک رہا ہے۔ وزیراعظم صاحب ریاست مدینہ کے آثار آپ کو دکھائی دینے لگے ہیں لیکن یہ عوام کو بھی دکھائی دینے چاہئیں۔ وزیراعظم صاحب ذرا سنبھل کے!ضمیر فروشی صرف سینیٹ الیکشن میں نوٹ کی چمک سے ووٹ فروخت کرنے کا نام نہیں بلکہ قومی اثاثوں کی بے توقیری اورعوام کی جیبوں پر ڈاکا ڈالنے کی راہ ہموار کرنے والے بھی ضمیر فروش ہی ہوتے ہیں۔ اردگرد نظر دوڑائیے اور ایسے بے ضمیروں کوبے نقاب کرکے قوم سے کیا گیا دیرینہ وعدہ بھی پورا کردیجئے۔