حضرت خواجہ حافظ جمال اللہ ملتانی کا تین روزہ سالانہ عرس آج 19 دسمبر 2020ء شروع ہو رہا ہے۔ ان کا عرس ہر سال 3، 4، 5 جمادی الاول کو ملتان میں عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے۔ اندرون و بیرون ملک سے لاکھوں زائرین تقریبات میں شرکت کرتے ہیں ۔ حافظ جمال اللہ ملتانی روائتی مسند نشین نہ تھے بلکہ ان کی تعلیمات میں حریت کا درس نمایاں ہے۔ آپ کے عقیدت مندوں میں والیان ملتان کا نام بھی شامل ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ اٹھارہویں صدی میں جس ہستی نے سلسلہ چشتیہ میں کام شروع کیا وہ حضرت خواجہ نور محمد مہارویؒ تھے۔ آپ کے مرید خاص حضرت حافظ جمال اللہ ملتانی بھی تھے، بلاشبہ آپ بے پناہ صلاحیتوں کے مالک تھے، حضرت قبلہ عالم نور محمد مہارویؒ نے ان کو ملتان میں چشتیہ سلسلے کی ترویج اور تبلیغ کی غرض سے حضرت شاہ فخرصاحب کے اشارہ سے متعین کیا تھا۔ حضرت حافظ محمد جمال تقریباً 1160ھ میں ملتان میں پیدا ہوئے، آپ کے والد محترم اور دادا جان دونوں قرآن مجید کے حافظ تھے، آپ کے والد محترم کا نام حافظ محمد یوسف اور جد امجد کا اسم گرامی حافظ عبدالرشید تھا۔ آپ کی ذات اعوان تھی۔ آپ کی نسبت چشتیاں شریف کے حضرت خواجہ نور محمد مہاروی ؒ سے ہے۔ آج جبکہ بھارت جیسے بزدل دشمن کی طرف سے پاکستان کی سرحدوں کے ساتھ ساتھ نظریاتی سرحدوں کی خلاف ورزی ہو رہی ہے تو پاکستان کے مشائخ عظام کے لئے حضرت حافظ جمال اللہ ملتانی کی شخصیت منارہ نور کی حیثیت رکھتی ہے۔
اس بات کو سب تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت حافظ محمد جمال ملتانی قدس سرہ نے ملتان میں مسند ارشاد بچھائی، تصوف کا فیض عام کیا۔ آپ کے اخلاص اور جذبہ صادق کے سبب مخلوق خدا جوق در جوق آپ کے پاس آنے لگی، یہاں تک کہ ملک کے بڑے بڑے عالم اور مسند نشینوں کو، جن کی شہرت دور دور تک پھیلی ہوئی تھی، آپ کے دست اقدس پر بیعت کا شرف حاصل کیا، صوفیہ اور اولیاء آپ کے جاری چشمہ فیض سے سیراب ہونے لگے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قبلہ عالم کے انہی خلفاء ( خواجہ عاقل محمدؒ، شاہ سلیمان تونسوی، حافظ جمال اللہ ملتانی اور شیخ نور محمد نارووالہ کی وساطت سے دوبارہ سلسلہ چشتیہ کا احیاء ہوا۔ خواجہ عاقل محمد سے خواجہ فرید جیسے ہفت زبان صوفی شاعر، شاہ سلیمان سے خواجہ شمس الدین سیالوی اور ان سے پیر مہر علی شاہ تاجدار گولڑہ شریف اور حافظ جمال اللہ ملتانیؒ سے خواجہ خدا بخش خیر پوری، منشی غلام حسن شہید خواجہ عبید اللہ ملتانی اور علامہ عبدالعزیز پرہاروی جیسی عظیم ہستیوں نے اس سلسلے کو امر کیا اور ایک سر چشمہ فیض جاری کیا، انسانیت فیض یاب ہوئی، مخلوق خدا اس سے فیض یاب ہوتی رہے گی۔
آپ کے اوصاف حمیدہ پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حافظ محمد جمال ملتانی کمال باطن، تہذیب، اخلاق و کمالات سے آراستہ تھے۔ غریبوں کی دلجوئی کو اپنا فرض سمجھتے۔ غریب اور امیر کوئی بھی ہو دعوت دے جاتا تو آپ غریب کے پاس پہلے جاتے تھے۔ کبھی کھانے میں سے عیب نہ نکالتے بلکہ کوئی ایسی حرکت کرتا تو منع فرماتے۔ ان کا دستور تھا کہ جس وقت تک سارے مریدین اور متعلقین کھانے سے فارغ نہ ہو جاتے کھانا تناول نہیں فرماتے تھے۔ بچوں سے خوشی سے بات کرتے۔ اگر کوئی بات ناگوار ہوتی تو منع نہیں کرتے تھے بلکہ تعریف اور تمثیل کے ساتھ سمجھاتے۔ اپنے پیر بھائیوں کی امداد کیلئے ہر وقت تیار رہتے۔ حافظ صاحب نے دو شادیاں کی مگر اولاد نہ ہوئی۔ حافظ صاحب کا انتقال 5 جمادی الاول 1224ھ بمطابق 2 جون 1811ء میں تقریباً 66 سال کی عمر میں ہوا۔ آپ کا مزار محلہ حافظ جمال ملتان میں ہے۔ حضرت حافظ جمال اللہ ملتانی ؒ کا مزار ملتان میں مرجع خلائق ہے۔ حضرت حافظ جمال اللہ ملتانی فارسی، عربی اور سرائیکی زبان کے بہت بڑے شاعر تھے۔ چراغ نامہ ان کی مشہور سرائیکی کی کتاب ہے۔
سب سے اہم بات یہی ہے کہ حافظ جمال اللہ ملتانی محض صوفی و مدرس ہی نہ تھے بلکہ آپ نے جہاد بالقلم اور جہاد بالنفس کے ساتھ جہاد بالسیف کا فریضہ بھی انجام دیا۔ آپ کے عہد میں ملتان پر حملہ آوری کا عمل جاری تھا، نواب شجاع خان جو آپ کے عقیدت مند تھے، حملوں سے تنگ تھے مگر حافظ جمال اللہ ملتانی نے ملتان کے دفاع کیلئے ان کا ساتھ دیا، ملتان کے نواب نے اپنے بڑے بیٹے مظفر خان کو حافظ جمال اللہ ملتانی کا شاگرد اور مرید بنایا۔ حافظ جمال اللہ ملتانی اپنے مریدین کو دفاع کیلئے تیار کرتے رہے۔ تاریخی کتب میں یہ بھی درج ہے کہ غیر مسلموں کی طرف سے ملتان پر مختلف اوقات میں قریباً 17 حملے ہوئے اور حافظ جمال اللہ ملتانی دفاع میں خود شریک ہوتے رہے۔ نواب شجاع خان 1777ء کو وصال ہوا تو مظفر خان ملتان کا تخت نشین ہوا اور اپنے مرشد سے ہر طرح کی مدد حاصل کرتا رہا۔ کتابوں میں یہ بھی درج ہے کہ حافظ جمال اللہ ملتانی اپنی خانقاہ کے سالکین اور درسگاہ کے طلبہ کو فنون حرب و ضرب کی تعلیم دیتے۔ جب وقت آیا تو آپ نے عملی جہاد کا فریضہ سر انجام دیا۔ غیر مسلموں نے جب جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملتان پر چڑھائی کی تو آپ نے اپنے مریدین و تلامذہ کے ہمراہ تلواریں بے نیام کئے قلعے کی فصیل پر پہنچ گئے۔ آپ نے یہ بھی کہا تھا کہ میری زندگی میں ملتان کو کوئی فتح نہیں کر سکتا۔
علامہ عبدالعزیز پرہاڑوی نے اپنی کتاب خصائل رضیہ میں اس کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے " آپ اپنی خانقاہ سے نکلے اور جذبہ جہاد سے سرشار لہجے میں فرمایا اب جب کہ کفار نے ہمیں گھیر لیا ہے، ایسے عالم میں جہاد ہم پر فرض ہو چکاہے۔ اپنی خانقاہوں اور حجروں سے نکلو اور اسوہ شبیری اپناتے ہوئے اللہ کی راہ میں اپنی تلوار کو بے نیام کرو اور ملعون کافروں سے لڑتے ہوئے شہید یا غازی کا مرتبہ پاؤ کہ ہمارے لیے یہی دو راستے ہیں اور یہ دونوں ہمارے لئے باعث سعادت ہیں۔" (بحوالہ کتاب خصائل رضیہ)