روزنامہ 92 نیوز ملتان کی ایک خبر کے مطابق حکومت پنجاب نے نیشنل پارک لال سونہارا کا 40 ہزار ایکڑ رقبہ تلور اور چنکارہ ہرن کی آفزائش کیلئے ہوبارہ فاؤنڈیشن ابوظہبی کو 99 سالہ لیز پر الاٹ کر دیا ہے۔ خبر میں بتایا گیا ہے ابو ظہبی انتظامیہ نے اس حدود میں موجود چولستانیوں کو علاقہ خالی کرنے کا حکم دے دیا ہے، جس سے مقامی لوگوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہوبارہ فاؤنڈیشن کو تلور اور ہرن کی فکر ہے، انسانوں کی کیوں نہیں؟ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ چولستان تلور اور ہرن کی آماجگاہ ہے، ہرن صدیوں سے چولستان میں رہ رہا ہے اور تلور بھی ہر سردی کے موسم میں باہر سے آ کر چولستان میں قیام پذیر ہوتا آ رہا ہے، سوال یہ ہے کہ تلور اور ہرن کے قاتل کون ہیں؟ یہ کیا بات ہوئی کہ انسانی آبادیوں کو بے دخل کر کے ہرن اور تلور کی اس بنیاد پر افزائش کی جائے کہ شکاری اپنے شوق کی خاطر ان کو دوبارہ قتل کر سکیں۔
ایک سروے کے مطابق ہوبارہ فاؤنڈیشن کو موجودہ الاٹمنٹ کی حدود میں 60 ٹوبھہ جات، 200 سے زائد خاندان اور لاکھوں جانور نقل مکانی کرنے پر مجبور ہونگے۔ اس سے پہلے ضلع رحیم یارخان میں ابوظہبی کو ایک لاکھ ایکڑ رقبہ الاٹ ہوا تو وہاں بھی بے دخلی کے مسائل سامنے آئے، اگر اس سے بھی پیچھے چلے جائیں تو چولستان میں ہونے والی آباد کاری سے مقامی لوگوں کو جو مشکلات پیش آ رہی ہیں، تاریخی کتب کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ آباد کاری ایک دیمک زدہ عمل ہے جو نہایت خاموشی اور سست روی سے چلتا رہتا ہے۔ سلو پوائزننگ کی طرح شریر میں پھیلتا یہ عمل بعض اوقات اتنا سست ہوتا ہے کہ دہائیوں تک وطنیوں کو خبر ہی نہیں ہوتی کہ انکے اردگرد کونسا مکڑ جال بُنا جا چکا ہے۔ آج ہمارے سامنے ان نام نہاد مہذب یورپی اقوام کی لمبی فہرست ہے جو امریکا، کینیڈا، جنوبی امریکا، جنوبی افریقہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ پر آباد کاری کے ذریعے قابض ہوئیں اور وہاں کے مقامی باشندوں کا خون نچوڑ کر موجودہ مقام تک پہنچی ہیں۔ یہ جدید اکیسویں صدی ہے، جمہوریت اور انسانی حقوق کی علمبرداری ہے مگر آج بھی گوری چمڑے والے متعصب گورے اور امریکی آقاؤں کی پالیسیوں پر عمل پیرا تیسری دنیا کے دیسی حکمران اپنے اپنے ملکوں میں مقامی آبادی کا استحصال کر رہے ہیں۔
بنیادی انسانی سہولتوں کے حوالے سے دیکھا جائے تو چولستان میں آج بھی انسانوں کو کسی طرح کی کوئی سہولت میسر نہیں ہے۔ وہاں سکول، سڑکیں اور ہسپتال تو کجا پینے کا پانی بھی میسر نہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ چولستان کے قدیم باشندے صدیوں سے پیاس و افلاس کا مقابلہ کرتے آ رہے ہیں مگر انہوں نے اپنی سرزمین کو نہیں چھوڑا، چولستان میں ان کے آباؤ اجداد تو کیا ان کی روحیں دفن ہیں، وہ موت قبول کر لیتے ہیں، مگر چولستان کی جدائی برداشت نہیں کرتے۔ عجب بات ہے کہ چولستان میں آباد کاری کا عمل شروع ہوا تو چولستانیوں اور وسیب کے مقامی لوگوں کو نظر انداز کر کے غیر مقامی اور بعض حالات میں غیر ملکی لوگوں کو زمینیں دی جا رہی ہیں۔ چولستانیوں کے صدیوں پرانے قبرستان تک باہر سے آنے والوں کو الاٹ کئے جا رہے ہیں اور چولستان کے اصل وارثوں کو انکی شرافت، امن پسندی اور مہمان نوازی کی سزا دی جا رہی ہے۔ صرف چولستان ہی نہیں وسیب کے تھل اور دمان میں بھی یہی کچھ ہوا ہے۔
تاریخی حوالے سے عرض کرتا چلوں کہ 1860ء اور 1870ء کے درمیانی عرصہ میں تھل کو پانچ سو کے قریب رکھوک کے نا م پر زمینیں رکھی گئیں مگر انگریز نے قانون بنایا کہ تھل میں مقامی افراد کو ان رکھوک میں اپنا مال مویشی چرانے اور درختوں وغیرہ سے لکڑ حاصل کرنے کا حق حاصل ہوگا اور رکھوک کی زمین نا قابل انتقال ہوگی مگر قیام پاکستان کے بعد رکھوک کی زمینیں بھی سرکاری افسروں کو الاٹ کر دی گئیں۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ انگریز بالکل اچھے نہ تھے مگر پاکستانی حکمرانوں کے عمل نے ظاہر کیا کہ ان سے تو انگریز بھی اچھے تھے۔ ڈیرہ اسماعیل خان سے لیکر جنوب کی طرف ڈیرہ غازی خان، راجن پور تک پھیلے ہوئے وسیع دامان کو دیکھا جائے تو وہاں کے رکھوک جن میں رکھ میرن، رکھ تریمن، رکھ زندانی، رکھ فتح خان، رکھ مور جنگی، رکھ کوٹلہ اسماعیل، رکھ رند والا، رکھ کھتراں، رکھ لغاری، رکھ ماری موجود تھے مگر قیام پاکستان کے بعد یہ رکھوک بھی مقامی لوگوں کو نظر انداز کر کے باہر سے آنے والے آباد کاروں کو دے دیا گیا۔
ڈیرہ اسماعیل خان چشمہ رائٹ بینک کینال آتے ہی پشتون رہنما مولانا مفتی محمود نے ضیا الحق سے لینڈ آرڈیننس منسوخ کرایا اور پشتون آباد کاری کا دروازہ کھول دیا اور مقامی لوگوں کو نظر انداز کر کے باہر سے آنے والے لوگوں کو دی گئی۔ ایک اندازے کے مطابق اب تک 20لاکھ ایکڑ اراضی آباد کاروں کے علاوہ لوگوں کو وسیب میں دی گئی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ 1965ء سے لیکر 1994ء تک وسیب کے بیشتر رقبے 20 سے 30 روپے فی ایکڑ کے حساب سے فروخت ہوئے جو رقبے انعام کے طور پر دیئے گئے، ان کی کہانی الگ ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر سابقہ آباد کاری کو دیکھا جائے تو گھوڑی پال سکیم، بھیڑ پال سکیم اور بوٹی پال سکیم کے نام پر نہ صرف لاکھوں ایکڑ رقبے غیر مقامی لوگوں کو الاٹ ہوئے اور رہائش کے نام پر جو چکوک بنائے گئے ان کی گلیاں سو سو فٹ چوڑی رکھی گئیں، سکول، ڈاکخانہ اور صحت و پانی کی سہولتوں کا بھی انتظام کیا گیا جبکہ مقامی آبادیاں آج بھی ان سہولتوں سے محروم ہیں، موجودہ حکمران دو نہیں ایک پاکستان کے نام پر بر سر اقتدار آئے ہیں، ان کے دور میں محروم طبقات کو مزید محروم کرنے کی رفتار تیز ہو چکی ہے تو انکو خود اس سوال کا جواب دینا چاہئے کہ کیا اس کا نام ریاست مدینہ ہے؟