ملکی سیاست میں نوابزادہ نصر اللہ خان بہت بڑا نام ہے۔ 27 ستمبرانکی برسی کا دن خاموشی سے گزر گیا۔ مولانا فضل الرحمن پی ڈی ایم کے صدر منتخب ہوئے تو مجھے یاد آیا کہ حکومت مخالف تحریک کے لئے اب تک نواب زادہ نصر اللہ خان سے بہتر کوئی نام سامنے نہیں آ سکا۔ آج ہم ان کو یاد کرتے ہیں ان کے سیاسی پس منظر کو دیکھتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ انہوں نے 23 مارچ 1940ء کو قرارداد پاکستان کے جلسے میں شرکت کی اور آزادی کیلئے عملی جدوجہد کی۔ یہ ٹھیک ہے کہ ان کے بزرگ اللہ داد خان انگریز دور میں اعلیٰ انتظامی آفیسر تھے، ان کو انگریزوں سے مراعات بھی ملیں، 1885ء میں ان کے انتقال کے بعد نوابزادہ نصر اللہ کے والد نواب سیف اللہ خان اعزازی اسسٹنٹ کمشنر بنے، ان کو مجسٹریٹ کے اختیارات بھی حاصل تھے اور 1894ء میں انگریزوں سے ان کو خان بہادر اور پھر 1910ء کو نواب کا خطاب ملا۔ اس کے ساتھ مراعات اور جاگیریں بھی عطا ہوئیں۔ نواب زادہ نصر اللہ خان 13 نومبر1918ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم آپ نے آبائی قصبہ خان گڑھ میں حاصل کی۔ گلستان بوستان اور مثنوی شریف کے اسباق مقامی علماء سے پڑھے۔ بعد میں ایچ ای سن کالج لاہور میں داخل ہوئے۔ 1937ء میں ملتان کے نواب خاں خاکوانی خاندان میں شادی ہوئی۔
نوابزادہ نصر اللہ خان نے بچپن سے ہی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔ 1930ء سے 2003ء یعنی نوعمری سے لے کر وفات تک انہوں نے طویل سیاسی سفر کیا۔ وہ ہر فوجی آمر سے ٹکرائے، اس لئے ان کو قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں، موصوف اٹک، کوٹ لکھپت، بہاولپور، فیصل آباد، ملتان، راولپنڈی، میانوالی اور مچھ جیل میں یکے بعد دیگرے 17 سال قید رہے۔ نواب زادہ نصر اللہ خان کے سیاسی پس منظر پر غور کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے مجلس احرار سے وابستگی اختیار کی۔ یہی وجہ ہے کہ بطلِ حریت سید عطا اللہ شاہ بخاری ان کے قریب ہوئے اور ان کی ہی دعوت پر انہوں نے مستقل سکونت ملتان میں اختیار کی۔ مجلس احرار سے ان کی علیحدگی اس بناء پر ہوئی کہ مجلس احرار نے قیام پاکستان کی مخالفت کی جبکہ نواب زادہ نصر اللہ خان قیام پاکستان کے حامی تھے اور انہوں نے پاکستان کے قیام کیلئے سرائیکی وسیب میں تحریک چلائی اور بڑے بڑے جلسے کئے۔
قیام پاکستان کے بعد 1952ء میں نواب زادہ نصر اللہ خان مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے صوبائی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے، وہ دور مسلم لیگ کے داخلی انتشار کا دور تھا، بانی پاکستان قائد اعظم وفات پا چکے تھے، اسی بناء پر نواب زادہ نصر اللہ خان نے مسلم لیگ کو چھوڑ کر جناح عوامی مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ 1958ء میں ملک میں مارشل لاء لگ گیا، اس کے ساتھ ہی نوابزادہ نصر اللہ خان نے جمہوریت کیلئے جدوجہد شروع کر دی۔ 1962ء میں ایوبی دور کے انتخابات میں بھی وہ رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔ جب جمہوریت کی بحالی کیلئے نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ قائم ہوا تو مغربی پاکستان میں اس کے کنوینئر نوابزادہ نصر اللہ خان اور مشرقی پاکستان میں نور الامین تھے۔ 1964ء میں خواجہ ناظم الدین سابق گورنر جنرل کی رہائش گاہ پر ڈھاکہ میں ایک اور اتحاد تشکیل پایا جس میں وفاقی پارلیمانی نظام اور ایوب خان کی برطرفی کا مطالبہ ہوا۔ اسی موقع پر محترمہ فاطمہ جناح کو کمبائنڈ اپوزیشن کی جانب سے ایوب خان کے مقابلے میں امیدوار نامزد کیا گیا۔ نواب زادہ نصر اللہ خان نے محترمہ فاطمہ جناح کی کامیابی کیلئے مشرقی اور مغربی پاکستان میں بڑے بڑے اجتماعات سے خطاب کیا۔ 1966ء میں نواب زادہ نصر اللہ خان کو گرفتار کر لیا گیا۔
رہائی کے بعد 26 ستمبر 1967ء کو نوابزادہ نصر اللہ خان نے جمہوری پارٹی کی بنیاد رکھی۔ مگر عوامی سطح پر ان کی جماعت کو پذیرائی حاصل نہ ہو سکی۔ یہاں تک کہ ان کی جماعت اپنے علاقے میں بھی جڑ نہ پکڑ سکی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ نواب زادہ نصر اللہ خان اپنے وسیب سے کٹے ہوئے تھے۔ ان کا زیادہ وقت لاہور میں گزرتا ان کی جماعت کے اہم رہنما حاجی حمید الدین انصاری جو کہ ملتان کی انجمن تاجران کے بھی رہنما تھے اور بعد میں وہ ہماری تنظیم سرائیکستان قومی کونسل میں شامل ہوئے اور اس کے نائب صدر بنے، مجھے بتاتے تھے کہ مجھے نوابزادہ نصر اللہ خان سے کبھی کوئی اختلاف نہ ہوا، اگر اختلاف تھا تو اس بات کا کہ ہم جب بھی کہتے کہ ہمارا وسیب محرومی کا شکار ہے، ہمارے وسیب میں ترقیاتی کام نہیں ہو رہے، نوجوانوں کو ملازمتیں نہیں مل رہیں، ہمارا صوبہ نہیں بن رہا، آپ آواز بلند کریں تو وہ منہ پھیر لیتے اور کہتے کہ میں اتنا بڑا لیڈر ہوں، آپ میرے منہ سے ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں کیوں اگلوانا چاہتے ہیں۔ میرے خیال میں یہی ایک وجہ تھی کہ وسیب میں ان کو پذیرائی حاصل نہ ہو سکی۔
1969ء میں نواب زادہ نصر اللہ خان نے سیاسی جماعتوں پر مشتمل ایک ایکشن کمیٹی تشکیل دی اور اس دوران ذوالفقار علی بھٹو بھی ایوب خان کے خلاف تحریک چلائے ہوئے تھے جس کی بناء پر ایوب خان نے اقتدار یحییٰ خان کے حوالے کر دیا۔ یحییٰ خان کے مارشل لاء کے خلاف جدوجہد کے نتیجے میں حکومت الیکشن کرانے پر مجبور ہوئی، مگر مغربی پاکستان کے حکمرانوں نے مشرقی پاکستان کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کیا جس کی بناء پر ملک دو لخت ہوا، بقیہ پاکستان کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو بنے، بھٹو نے 1977ء میں قبل از وقت الیکشن کرائے، دھاندلی کا الزام لگا کر اپوزیشن نے نواب زادہ نصر اللہ خان کی قیادت میں تحریک چلائی گئی جس کے نتیجے میں 5 جولائی 1977ء کو ضیاء الحق نے مارشل لالگا کر جمہوریت کا بورا بسترہ گول کر دیا، اس موقع پر یہ کہاوت مشہور ہوئی کہ نواب زادہ نصر اللہ خان جمہوریت کے دوران مارشل لاء کی راہ ہموار کرتے ہیں اور جب مارشل لاء لگتا ہے تو پھر جمہوریت کیلئے جدوجہد شروع کر دیتے ہیں۔ 1988ء کے الیکشن میں نواب زادہ نصر اللہ خان مظفر گڑھ سے قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے اور انہوں نے غلام اسحق خان کے مقابلے میں صدارتی انتخاب میں بھی حصہ لیا، آپ 27ستمبر 2003ء کو وفات پا گئے۔ نواب زادہ نصر اللہ خان بہت بڑے سیاستدان کے ساتھ شاعر اور ادیب بھی تھے۔ ان کے تذکرے کے بغیر تاریخ پاکستان مکمل نہیں ہو سکتی۔