Friday, 15 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Tabdeeli Relief Ka Naam Hai

Tabdeeli Relief Ka Naam Hai

کونسل آف پاکستان نیوزپیپرز ایڈیٹرز کے صدر عارف نظامی کی قیادت میں عہدیداروں کے وفد نے اسلا م آباد میں وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز اور وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے اطلاعات لیفٹیننٹ جنرل ( ر) عاصم سلیم باجوہ سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتوں میں آزادی صحافت کی صورتحال اور اخبار کو درپیش مسائل سمیت دیگر امور پر گفتگو کی۔ ملاقات میں یقین دلایا گیا کہ اخبارات کے لئے ٹھوس پالیسی بنائی جائے گی، مقامی اخبارات کے مسائل پر توجہ دیں گے۔ خدا کرے کہ یقین دہانی کا وعدہ صرف وعدہ نہ ہو بلکہ اس کی عملی صورت سامنے آنی چاہئے۔ کہ تبدیلی ریلیف کا نام ہے، تکلیف کا نہیں۔ اس کے ساتھ یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ دو دن سے اسلام آباد میں ہوں، سالانہ سرائیکی کانفرنس جو کہ کورونا کی وجہ سے ملتوی ہوئی تھی، کی نئی تاریخ کیلئے دوستوں سے طویل مشاورت ہوئی۔ اس کے ساتھ وفاقی سیکرٹری اطلاعات محمد اکبر خان درانی سے خصوصی طور پر ملا کہ درانی صاحب سے ان دنوں سے نیاز مندی ہے جب ان کی فرسٹ پوسٹنگ بحیثیت اسسٹنٹ کمشنر خانپور میں ہوئی۔ ان کی پوسٹنگ کا سال بھی 1990ء ہے اور ہم نے پہلے سرائیکی اخبار جھوک کا اجراء بھی اسی سال خانپور سے کیا۔

میں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پی ٹی وی ملتان کے بارے میں بتایا کہ ابھی تک اسے مکمل سنٹر کا درجہ حاصل نہیں ہوا، پروڈکشن کا شعبہ بند ہے اور پرانی ریکارڈنگ چلائی جاتی ہے۔ پی ٹی وی ملتان کے ساتھ ریڈیو پاکستان بہاولپور کی عمارت کے بارے میں بھی بتایا کہ وہ بہت پرانی ہو چکی ہے اور کسی بھی وقت حادثہ پیش آ سکتا ہے، اس پر آپ کی توجہ کی ضرورت ہے۔ درانی صاحب نے کہا کہ اس کے علاوہ؟ میں نے کہا کہ میں جس مقصد کیلئے حاضر ہوا ہوں وہ میڈیا کا بحران ہے، خصوصاً پرنٹ میڈیا کی حالت ناگفتہ بہ ہے، میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ پوری دنیا میں میڈیا وار ہے، اس جنگ میں پاکستانی میڈیا کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے،۔ وزارت اطلاعات میں موجود کچھ لوگ حکام بالا کو غلط رپورٹیں دے کر اپنی نا اہلی چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس طرح سے حکومت اور میڈیا کے درمیان محاذ آرائی کا ماحول بنا دیا گیا ہے۔ جس سے اخبارات اور حکومت دونوں کا نقصان ہے اور ملک کی ساکھ بھی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔

وفاقی سیکرٹری اطلاعات نے کہا کہ بہت سے اخبارات نے اپنی اصل سرکولیشن سے زیادہ ABC کے سرٹیفکیٹ حاصل کئے ہوئے ہیں۔ میں نے کہا کہ میں مانتا ہوں مگر سوال یہ ہے کہ سرٹیفکیٹ کس نے جاری کئے؟ سرٹیفکیٹ جاری کرنے والے بھی وہی لوگ ہیں جو کہ اب نمبر بنانے میں مصروف ہیں۔ میں نے درانی صاحب کو بتایا کہ آپ سے زیادہ بہتر کون سمجھتا ہے کہ ٹی وی اور اخبار چلانا کتنا مشکل کام ہے۔ وسائل کے باوجود حکومت اپنے میڈیا کے ادارے نہیں چلا پا رہی، پرائیوٹ طور پر ہم نے اپنے اداروں کو تمام وسائل دینے کے ساتھ اپنی زندگی بھی دے دی ہے لیکن ہمیں کیا ملا؟ اکبر خان درانی سے ان امور پر بات ہو رہی تھی کہ وہاڑی سے ایم پی اے چوہدری طاہر اقبال جو صوبہ محاذ کے اہم عہدیدار تھے، تشریف لائے، ان سے سیکرٹریٹ اور صوبے کے مسئلے پر گفتگو ہوئی، میں نے کہا کہ سیکرٹریٹ صوبے کا متبادل نہیں، تحریک انصاف اپنے وعدے کے مطابق صوبہ بنائے اور سیکرٹریٹ کے نام پر ملتان بہاولپور کی تفریق ختم کرے۔ چوہدری طاہر اقبال نے کہا کہ صوبہ بنے گا مگر میں اس بات کی حمایت کرتا ہوں کہ سیکرٹریٹ دو جگہوں پر تقسیم نہیں ہونا چاہئے۔

اکبر درانی سے رخصت کے بعد میں پی آئی ڈی آ گیا اور وہاں بھی افسران سے میڈیا کے متعلق بات کی۔ ایک افسر نے اخبارات سے متعلق سخت لفظ استعمال کیا تو میں نے کہاکہ اگر آپ اس طرح کی باتیں کریں گے تو آپ کی وزارت اطلاعات پر سوالات ہونگے۔ میں نے کہا کہ پی ٹی وی کو کتنے لوگ دیکھتے ہیں، اس کے باوجود ایک ارب روپیہ ہر ماہ بجلی بل کے ساتھ پی ٹی وی کی امداد کیلئے ان غریبوں سے بھی لیا جاتا ہے جن کے گھر میں ٹی وی سیٹ نہیں۔ صوبائی حکومتیں اور انکے ذیلی اداروں کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت کے ذیلی ادارے بھی اپنے جرائد شائع کرتے ہیں۔

جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ پوری دنیا میں میڈیا وار ہے، میڈیا کو ختم کرنے کی نہیں مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ عالمی سطح پر بی بی سی، وائس آف امریکا، AFP، CNN، رائٹرز وغیرہ کی کی میں مثالیں نہیں دونگا کہ وہ بہت ترقی یافتہ ممالک ہیں، وہاں ذرائع مواصلات بھی بہت آگے ہیں کہ ایک بلٹ ٹرین 400 کلومیٹر کا سفر ایک گھٹنے میں طے کر لیتی ہے، اخبارات کی فوری ترسیل ہوتی ہے، ہم نے اپنے ملک میں دستیاب سہولتوں کے پیش نظر اداروں کی منصوبہ بندی کرنی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ دنیا پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا سے بڑھ کر ڈیجیٹل کی طرف جا رہی ہے مگر ہر چیز کی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔ جیسے بلدیاتی اداروں کو بنیادی جمہوریت کا نام دیا جاتا ہے، اسی طرح قومی اخبارات کے ساتھ ساتھ علاقائی اخبارات کی بھی اپنی اہمیت ہے۔ آج صحافت کے جو بڑے بڑے نام ہیں یہ مقامی اخبارات سے پیدا ہوئے۔ مقامی اخبارات نے صرف لکھاری ہی نہیں بلکہ سیاستدان بھی پیدا کئے ہیں، اسی طرح مقامی مسائل کو صرف مقامی اخبارات ہی اجاگر کرتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پورے ملک میں لاکھوں افراد کا روزگارمقامی اخبارات سے وابستہ ہے۔ موجودہ حکومت محروم اور پسے ہوئے طبقات اور اداروں کی بحالی کے نعرے پر بر سر اقتدار آئی تھی، قومی اسمبلی کی موجودگی میں بلدیاتی اداروں کو زندہ رہنے کا حق ہے، اسی طرح علاقائی اخباروں کو بھی ختم کرنے کی بجائے زندہ رہنے دیجئے۔