اخبار بینی کا رجحان بہت کم ہوگیا ہے، نئی نسل نیٹ پر چلی گئی ہے مگر میرے جیسے بوڑھے اب بھی اخبار پڑھتے ہیں، وسیب میں تھڑے، چھپر ہوٹل، ماچے اور وساخ سیاسی ورکروں کے ایسے مراکز ہیں جہاں اخبار پڑھنے کو مل جاتی ہے، مجھے ایسی جگہوں پر بیٹھنے کا اکثر اتفاق ہوتا ہے، حیرانی ہوتی ہے کہ ان جگہوں پر بیٹھنے والے غریب سیاسی ورکر جن کے کپڑے میلے کچیلے ہوتے ہیں، حقے کا اتنا رواج نہیں رہا البتہ تھرڈ کلاس سگریٹ اتنی زیادہ مقدار میں پیتے ہیں کہ سگریٹ سے سگریٹ ٹوچین والا معاملہ ہوجاتا ہے اور جس سے ماچس کی ایک تیلی ضائع ہونے سے بچ جاتی ہے۔ گزشتہ روز دھریجہ نگر میں ماماں احسان اللہ کی وساخ یعنی ڈیرے پر بیٹھا تھا بابا حمید، ادا محمد دین، سیٹھ خورشید اور بابا منیر چشتی اخبار دیکھ رہے تھے۔ ساتھ ہی ساتھ خبروں پر تبصرے بھی ہورہے تھے۔ مجھے یاد آیا کہ سرائیکی اخبار جھوک میں میاں انیس دین پوری "بٹ کڑاک" کے نام سے کالم لکھتے تھے ان کے کالم کے کردار منشی مُک مُکا، مولوی بھن تروڑ، ماسٹر گنڈھ تروپ ہوا کرتے تھے وہ بھی انہی موضوعات پر لکھتے، پڑھنے کامزہ آتا۔ میاں انیس دین پوری اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں، بہت بڑے خانوادے اور بہت بڑی گدی سے تعلق کے باوجود انہوں نے ہمیشہ وسیب کے کچلے ہوئے طبقات کیلئے لکھا، ان کی کتاب "بٹ کڑاک" کے نام سے شائع ہوچکی ہے جوکہ سرائیکی صحافت میں طنز و مزاح کا بہت بڑا حوالہ ہے اور وسیب کی یونیورسٹیوں میں پڑھائی جارہی ہے۔ میں اخبار کی بات کررہا تھا، ادا محمد دین خبر پڑھ کر سنا رہا تھا مہنگائی کنٹرول نہ ہوسکی، قیمتوں میں ہوشربا اضافہ، ٹماٹر 400روپے کلو، انڈے 200روپے درجن، بابا محمد دین نے فَٹ جواب دیا، نہیں بابا یہ اخبار والا جھوٹ لکھ رہاہے، چند دن پہلے بلاول بھٹو تقریر میں کہہ رہا تھا کہ انڈے 200روپے کلو اور ٹماٹر 100روپے درجن، سب نے قہقہ لگایا۔
سیٹھ خورشید نے خبر پڑھکر سنائی کہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کہتے ہیں کہ پاک فوج قوم کافخر ہے، ایاز صادق نے ملک دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیان دیا۔ بابا محمد دین نے کہا کہ عثمان بزدار کو ایاز صادق کا بیان یاد ہے، نوازشریف کا نہیں، کیا نوازشریف کی کمی کی ہے، اگر نوازشریف اور ایاز صادق والا بیان آصف زرداری، بلاول بھٹو یا یوسف رضا گیلانی دیتا تو سولی پر لٹکا دئیے گئے ہوتے، نوازشریف ان کا اپنا ہے اس لئے وہ بیان دے رہے ہیں۔ بابا منیر چشتی نے کہا کہ اس بات کو بھی دیکھنا ہوگا کہ نوازشریف اور ایاز صادق اپنی طرف سے بیان دے رہے ہیں یا ان کو کوئی بیان دلوا رہا ہے۔
سیٹھ خورشید نے خبر پڑھ کر سنائی کہ صوبائی حکومت کہتی ہے کہ صدیوں پرانے طرز حکمرانی کو تبدیل کردیا گیا ہے، ریونیو کے معاملات درستگی ریکارڈ، فرد کا اجراء، انتقالات کا اجراء، رجسٹری، انکم سرٹیفکیٹ، معائنہ ریکارڈ، ڈومیسائل اور ریونیو سے متعلقہ دیگر امور ریونیو عوامی خدمت کچہریوں کے ذریعے فوری حل ہونگے۔ بابا حمید نے کہا کہ سب جھوٹ ہے، لینڈ اتھارٹی کے کمپیوٹر سسٹم پٹواری کی کرپشن سے بھی آگے چلا گیا ہے، اس پر ادا محمد دین نے کہاکہ محکمہ زراعت کی سرپرستی میں جعلی زرعی ادویات تیار کرنیوالے کو آج تک کسی نے نہیں پوچھا، وسیب سے تعلق رکھنے والے کپاس کے کاشتکاروں کے کھربوں ڈوب گئے کسی کو پرواہ نہیں بابا منیر چشتی خبر پڑھ کر سنارہے تھے چنی گوٹھ، لیاقت پور، خان پور اور رحیم یارخان روڈ پر آئے روز حادثے قیمتی جانوں کا ضیاع ہورہا ہے، اعلان کے باوجود حکومت چنی گوٹھ تا چوک بہادر پور دو رویہ سڑک نہیں بنا رہی، بابا حمید نے کہا کہ دھریجہ پھاٹک حادثے کی چوتھی برسی 16ستمبر کو خاموشی سے گزر گئی، اعلان ہوا تھا کہ سڑک کو دو رویہ کیا جائے گا اور لواحقین کو معاوضہ ملے گا نہ معاوضہ ملا اور نہ سڑک دو رویہ ہوئی۔ بابا منیر چشتی نے کہا کہ چنی گوٹھ تیز گام کے آتش گردی کا واقعہ کو آج ایک سال پورا ہوگیا ہے مگر کچھ نہیں ہوا اُلٹا ریلوے حکام نے ملبہ مسافروں پر ڈال کر اپنی جان چھڑا لی۔
ادا محمد دین نے خبر پڑھ کر سنائی کہ مخدوم سید احمد محمود کو دوسری مرتبہ بھاری اکثریت سے ریس کورس لاہور کا چیئرمین منتخب کرلیا گیاہے، بابا حمید نے کہا کہ وسیب کے جاگیردار، مخدوم اور وڈیروں کا اصل گھر لاہور ہے، وسیب میں تو صرف ووٹ لینے یا پھر زمینوں کا معاوضہ لینے کیلئے آتے ہیں باقی انکا سب کچھ لاہور ہوتا ہے یا پھر لندن اور پیرس۔ سیٹھ خورشید نے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ کچھ سال پہلے مخدوم احمد محمود کے ذاتی جہاز کا لاہور میں حادثہ ہوا تھا، جہاز کو کچھ نقصان ہوا، مخدوم احمد محمود کو اللہ نے بچالیا، ریس کورس سیکرٹری نے مخدوم احمد محمود کو کہا تھا کہ آپ کو اللہ نے بچالیاہے، آپ صدقے میں یہ جہاز ریس فورس کو ڈونیٹ کردیں، مخدوم احمد محمود نے وہ جہاز مفت میں ریس کورس لاہور کو دے دیا، بابا حمید نے کہا کہ وسیب کے کسی غریب کو تو اپنے بچ جانے پر مخدوم احمد محمود نے کالی مرغی یا کالے بکرے کا صدقہ دینا گوارہ نہیں کیا یہ لوگ لاہور میں جہاز تک دے آتے ہیں، یہ لوگ وسیب کو وطن نہیں اپنا بیگار کیمپ سمجھتے ہیں۔ اس کے باوجود ہم جاہل لوگ ان کے ہاتھ پائوں چومتے ہیں۔
منیر چشتی نے خبر پڑھ کر سنائی کہ مئو مبارک رحیم یارخان کے روحانی پیشوا مخدوم حمید الدین حاکم کا705واں عرس اختتام پذیر ہوچکا ہے۔ سندھ اور بلوچستان سے ہزاروں زائرین نے شرکت کی۔ ادا محمد دین نے کہا کہ سندھ اور بلوچستان سے تو زائرین آئے مگر وسیب سے زائرین بڑی تعداد میں شریک کیوں نہیں ہوتے؟ سیٹھ خورشید نے کہا کہ یہ ذمہ داری سجادگان کی ہے کہ وہ اس پر غور کریں، لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ تاریخی کتابوں میں بہت مغالطے ہیں اور مخدوم حمید الدین کی ہسٹری درست لکھی ہوئی نہیں، مختلف کتابوں میں مختلف تاریخ آئی ہے، بابا منیرچشتی نے کہا کہ یہ کام بھی گدی نشینوں کا ہے کہ وہ تاریخی مغالطے درست کرائیں، اب پیپلزپارٹی کے مخدوم شہاب الدین سجادہ نشین ہیں مگر انہوں نے اپنے بزرگوں کے حوالے سے کتاب تو کیا ایک چھوٹا سا کتابچہ بھی شائع نہیں کرایا، سوال یہ ہے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ علامہ اقبال نے کہا تھا کہ "باپ کا علم بیٹے کواگر نہ ازبر ہو، تو پھروہ وارثِ میراث پدر کیوں کر ہو"