Friday, 15 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Yome Azadi Tajdeed Ehad Ka Din

Yome Azadi Tajdeed Ehad Ka Din

یوم آزادی تجدید عہد کا دن ہے، گزشتہ روز 74 واں جشن آزادی قومی و ملی جذبے اور جوش و خروش کے ساتھ منایا گیا۔ وفاقی دارالحکومت میں 31 جبکہ صوبائی دارالحکومت میں 21، 21 توپوں کی سلامی کے ساتھ ساتھ " گلی گلی سنوار دیں گے، چمن چمن نکھار دئے گئے، گر یہ مٹی طلب کرے گی تو خون دل بار بار دیں گے " جیسے شعر اور نغمے جگہ جگہ سننے کو ملے۔ صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان عارف علوی نے کہا کہ " یکساں نصاب تعلیم ملک کی تعمیر و ترقی کیلئے اہم ہے۔" یہ درست ہے کہ ہمارے اکابرین یوم آزادی پر یکساں نصاب تعلیم کی بات کرتے ہیں مگر عملی طور پر بات کرنے والوں کے بچے بھی ان تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں جہاں الگ نصاب تعلیم پڑھایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے یوم آزادی پر اپنے پیغام میں کہا کہ " دہشت گردی اور آفات کا پاکستانی قوم نے ثابت قدمی کے ساتھ مقابلہ کیا اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔" یہ درست ہے کہ پاکستان نے ضیا الحق کے آنے کے بعد دہشت گردی کا آغاز ہوا اور پاکستانی قوم نے یقینا جواں مردی کے ساتھ دہشت گردی کا مقابلہ کیا، اس میں عمران خان سے پہلے والی حکومتوں کا بھی دور شامل ہے، وزیراعظم کو کھلے دل کے ساتھ دہشت گردی کے مقابلے پر سابقہ حکومتوں کے کردار کو بھی تسلیم کرنا چاہئے۔ صدر مملکت نے نصاب تعلیم کا ذکر چھیڑا ہے تو موقع غنیمت جانتے ہوئے میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کسی بھی تہذیبی اور ثقافتی ورثے کو محفوظ کرنے کے لئے مقامی زبانوں کو محفوظ کرنا ضروری قرار دیا جاتا ہے۔ سندھی کے بعد اب پشتو اور کسی حد تک پنجابی عمومی تدریس نصاب کا حصہ بنی ہیں۔ بلوچی، سرائیکی اور کشمیری کہیں کہیں خاص تدریس میں شامل ہیں۔ باقی علاقائی زبانوں کے سیکھنے اور سکھانے کے حوالے سے کافی مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ بہت سی علاقائی زبانیں صرف بول چال کا حصہ ہیں اور ان کا رسم الخط اور بنیادی گرامر کا کہیں وجود نہیں ملتا جو کہ ان کی بقاء کے لئے خطرناک ہے۔ علاقائی زبانوں کی ثقافت کے لئے بھی خطرے میں ہے کہ ہمارے دیہی علاقوں سے شہروں میں ہجرت کرنیوالے لوگ زیادہ تر اردو کا سہارا لیتے ہیں اور ان کی آنے والی نسلیں اپنی علاقائی زبان اور ثقافت کو نہیں سیکھ پاتیں۔ اس طرح ایک زبان موت کاشکار ہو جاتی ہے۔ آج اہل وطن کو ثقافتی پاکستان کی ضرورت ہے۔ آج اس بات کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں بسنے والے تمام لوگوں کو برابر حقوق ملیں۔ ہمسایہ ملک بھارت میں 188 زبانیں اور ساڑھے پانچ سو بولیاں بولی جاتی ہیں۔ ان میں سے بڑی زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ حاصل ہے۔ اسی طرح پاکستان میں 76 کے قریب زبانیں اور بولیاں بولی جاتی ہیں یہاں بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ زبانیں جو نصابی اہلیت کے حامل ہیں انہیں قومی زبانوں کا درجہ دیا جائے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سابقہ غلطیوں کو پھر سے نہ دہرائیں۔ یہ بات مان لینی چاہئے کہ قیام پاکستان کے وقت ایک زبان کو قومی زبان قرار دینے کے منفی نتائج سامنے آئے اور ہم مشرقی پاکستان سے بھی محروم ہوئے۔ اب اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم حقائق کو تسلیم کریں اور پاکستانی زبانوں کو اُن کے حقوق دیں۔ پاکستان کی تاریخ پر غور کریں تو قیام پاکستان کیلئے عام آدمی کی خدمات سب سے زیادہ ہیں، جاگیردار آخر وقت تک انگریز کے ساتھ رہے اور بیورو کریس نے بھی 13 اگست 1947ء کی تنخواہ انگریز سے وصول کی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ 1906ء میں مسلم لیگ بنگال میں قائم ہوئی اور سندھ اسمبلی نے قیام پاکستان کی قرارداد منظور کی، سب کی خدمات کا ذکر ہونا چاہئے۔ گزشتہ دو دنوں میں شائع ہونے والے میرے کالموں پرمیرے مہربان بزرگ صحافی چوہدری خالدمحمود صاحب آف فورٹ عباس ضلع بہاولنگر نے حوصلہ افزائی کے ساتھ خوبصورت بات کی کہ پاکستان غریبوں نے بنوایا مگر آج سب سے زیادہ ظلم بھی غریبوں پر ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کہ قائد اعظم نے فرمایا تھا " ایمان، اتحاد، تنظیم" اور ریڈیو کا ماٹو " قولو اللناس حسنا" تھا، محکمہ ڈاک نے " خدمت، دیانت، امانت " کا مونو گرام پیش کیا تھا مگر یہ سب باتیں اب نعروں کی حد تک رہ گئی ہیں۔ انڈیا سے خون کے دریا غریبوں نے عبور کئے مگر منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے۔ فیض احمد فیض ہماری قومی تاریخ کا بہت بڑا حوالہ ہیں، ان کی شاعری غریب کی پکار ہے، تجدید عہد کے موقع پر ان کی نظم اس درخواست کے ساتھ پیش کر رہاہوں کہ ریاست مدینہ کے دعویدار اس پر ضرور غور کریں۔ جس دیس سے ماؤں بہنوں کو اغیار اٹھا کر لے جائیں جس دیس سے قاتل غنڈوں کواشراف چھڑا کر لے جائیں جس دیس کی کورٹ کچہری میں انصاف ٹکوں پر بکتا ہوجس دیس کا منشی قاضی بھی مجرم سے پوچھ کے لکھتا ہوجس دیس کے چپے چپے پر پولیس کے ناکے ہوتے ہوں جس دیس کے مندر مسجد میں ہر روز دھماکے ہوتے ہوں جس دیس میں جاں کے رکھوالے خود جانیں لیں معصوموں کیجس دیس میں حاکم ظالم ہوں سسکی نہ سنیں مجبوروں کیجس دیس کے عادل بہرے ہوں آہیں نہ سنیں معصوموں کیجس دیس کی گلیوں کوچوں میں ہر سمت فحاشی پھیلی ہوجس دیس میں بنت حوا کی چادر بھی داغ سے میلی ہوجس دیس میں آٹے چینی کا بحران فلک تک جا پہنچےجس دیس میں بجلی پانی کافقدان حلق تک جا پہنچےجس دیس کے ہر چوراہے پردو چار بھکاری پھرتے ہوں جس دیس میں روز جہازوں سے امدادی تھیلے گرتے ہوں جس دیس میں غربت ماؤں سے بچے نیلام کراتی ہوجس دیس میں دولت شرفاء سے نا جائز کام کراتی ہوجس دیس کے عہدیداروں سے عہدے نہ سنبھالے جاتے ہوں جس دیس کے سادہ لوح انساں وعدوں پہ ہی ٹالے جاتے ہوں اس دیس کے ہر اک لیڈر پرسوال اٹھانا واجب ہےاس دیس کے ہر اک حاکم کوسولی پہ چڑھانا واجب ہے