نواز شریف مشکل میں ہیں، انہیں فیصلہ کرنا ہے کہ عدالت کے سامنے سرنڈر کریں یا جیل جانے کا خوف خود پہ طاری رکھیں۔ انہیں فیصلہ کرنا ہے کہ اپنے خلاف آنے والے فیصلوں میں اپیل کا حق استعمال کر کے سرخرو ہونے کے امکان کو زندہ رکھیں یا پھرغیر حاضر رہ کر اپیل کا حق کھو دیں اور باقی کی زندگی ایک مجرم اور مفرور کی حیثیت سے گزاریں۔
نواز شریف اگر واپس نہیں آتے تو کیا ہو گا؟ ان کے مقدمات اور سیاست کو کیا نقصان پہنچے گا؟ چلیے پہلے اسی کا ایک جائزہ لے لیتے ہیں۔ عدالت کے بلانے پر بھی واپس نہ آنے پر نواز شریف کو ممکنہ طور پر چھ نقصانات ہو سکتے ہیں
:-1اگر نواز شریف واپس نہیں آتے تو عدالت میں غیر حاضری کی وجہ سے وہ اپیل کا حق کھو سکتے ہیں۔ قانونی ماہرین کی رائے میں اس بات کا قوی امکان ہے کہ عدالت نواز شریف کی غیر حاضری کی بنیادپر ان کی اپیلیں فارغ کر دے۔ اس کے بعد نواز شریف اپنی سزا کے خلاف کسی فورم پر اپیل نہیں کر سکیں گے۔
-2 اگر نواز شریف واپس نہیں آتے تو مجبورا انہیں باقی کی زندگی مفرور اور مجرم کی حیثیت سے لندن میں گزارنی پڑے گی۔
-3اگر نواز شریف ابھی واپس نہیں آتے تو پھر جب بھی وہ واپس آئیں گے، انہیں جیل جاکر باقی کی سزا کاٹنی ہو گی کیونکہ ان کے پاس اپیل کرنے کی آپشن باقی نہیں ہو گی۔
-4 اگر نواز شریف واپس نہیں آتے تو ان کی بیٹی مریم نواز کے لیے سیاسی چیلنجز بڑھ جائیں گے۔ مریم اور ان کے والد ہارے ہوئے محسوس ہوں گے، تا حیات قائد کے بغیر ن لیگ خود کو بے سہارا اور بے آسرا محسوس کرتے ہوئے ہمت ہارنے لگے گی، ممکن ہے پارٹی تتر بتر ہونے لگے۔ نواز شریف میدان میں نہیں ہوں گے تو کارکنوں میں بد دلی بڑھ جائے گی یہ صورتحال ان کی بیٹی کے لیے تنہا ہینڈل کرنا مشکل ہو جائے گی۔
-5 اگر نواز شریف واپس نہیں آتے تو ان کے مزاحمت کی سیاست کے فلسفے کو نقصان پہنچے گا، جب مزاحمت کرنے کے لیے میدان میں موجود ہی نہیں ہوں گے تو کیسا فلسفہ، کیسی مزاحمت اور کیسی سیاست۔
-6اگر نواز شریف آج واپس نہیں آتے توجیل جانے کے ڈر سے اگلے الیکشن میں بھی واپس نہ آ پائیں گے جس سے ان کی پارٹی کو انتخابی میدان میں بھی شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اب دوسری صورت پہ غور کیجئے۔ اگر نواز شریف واپس آتے ہیں تو کیا ہو گا۔ نواز شریف کی واپسی کی صورت میں ممکنہ طور پر تین چیزیں ہو سکتی ہیں۔
-1 نواز شریف کو ائیر پورٹ سے ہی گرفتار کر لیا جائے اور انہیں دوبارہ جیل میں ڈال دیا جائے۔ یعنی ان کا دسمبر والا سٹیٹس بحال ہو جائے اور وہ پھر دس مہینے پہلے والی پوزیشن پر جا کھڑے ہوں گے۔
-2دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ عدالت انہیں واپسی پر گرفتار نہ ہونے کا کہہ دے۔ نواز شریف واپس آنے کے بعد عدالت میں پیش ہوں، خود پیش ہو کر حاضری سے استثناء کی درخواست کریں، میڈیکل رپورٹس دکھائیں، واپس جانے کی درخواست کریں اور اجازت حاصل کرکے واپس چلے جائیں۔
-3تیسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ نواز شریف واپس آکر جیل جائیں، دوبارہ بیمار ہوں، پلیٹ لیٹس دوبارہ گر جائیں، دوبارہ حکومت انہیں انسانی ہمدردی کی بنیاد پہ باہر بھیج دے۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ شہباز شریف کیا چاہیں گے، نواز شریف واپس آئیں یا نہ آئیں؟ ایسی صورتحال میں قیاس یہی ہے کہ شہباز شریف نواز شریف کے واپس آنے کے حق میں نہیں ہوں گے کیونکہ اگر نواز شریف واپس آتے ہیں تو ایک بار پھر مزاحمت کی سیاست کو ہواملے گی جو کہ شہباز شریف کے فلسفے کے خلاف ہے۔ شہباز شیریف اگلے الیکشن سے پہلے طاقت ور حلقوں کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ وہ مفاہمت پہ یقین رکھتے ہیں اور انہیں ان کی پارٹی کی حمایت حاصل ہے، اگر نواز شریف واپس آ گئے تو پھر شہباز شریف کی یقین دہانیاں دھری کی دھری رہ جائیں گی، بڑے بھائی توجہ کا مرکز بن جائیں گے اور چھوٹے بھائی پس منظر میں چلے جائیں گے۔ اس لیے شہباز شریف کے لیے موزوں یہی ہے کہ وہ بڑے بھائی کو آرام کا مشورہ دیں انہیں بتائیں کہ بھائی سیاست کو گولی ماریں، آپ کی صحت سے بڑھ کے کچھ بھی نہیں۔ آپ اپنا علاج کرائیں، چہل قدمی کریں، کھلی فضا میں سانس لیں اور اپنے آپ کو فکر سیاست میں مت کھپائیں۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ حکومت کیا چاہتی ہے، نواز شریف واپس آئیں یا نہ آئیں؟ تو جناب قیاس یہی ہے کہ حکومت بھی نواز شریف کے واپس آنے کے حق میں نہیں۔ نواز شریف کے واپس آنے کی صورت میں ایک تو اپوزیشن میں جان آنے لگے گی، وہ ایک پلیٹ فارم پہ اکٹھا ہونے لگے گی اور یہ بات حکومت کے لیے یقینا مشکل کا باعث بنے گی۔ دوسرا بیمارنواز شریف کو جیل میں بھیجنا ایک الگ چیلنج ہو گا۔ ویسے بھی حکومت نے نواز شریف کو واپس لانے کے لیے ابھی تک کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔ پریس کانفرنسز کر کے شور مچانا بے معنی ہے جب حکومت نے عدالت کے محاذ پر معنی خیز خاموشی اختیار کر رکھی ہو۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت بھی نواز شریف کو واپس لانا نہیں چاہتی۔ اس بحث میں نہ بھی جائیے کہ نواز شریف عدالت اور حکومت کو دھوکہ دے کر ملک سے باہر گئے یا واقعی بیمار تھے، یہ مگر حقیقت ہے کہ اب ان کی حالت ایسی خراب نہیں رہی کہ پاکستان واپس آ کر عدالت میں پیش نہ ہو سکیں۔ ہاں جیل جانے کے خوف سے واپس نہ آئیں تو دوسری بات ہے۔