Thursday, 26 December 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Awam Sada Hain Ya Bewaqoof?

Awam Sada Hain Ya Bewaqoof?

پیپلز پارٹی نے نہایت مہارت کے ساتھ پوری قوم کو اس بحث میں الجھا رکھا ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ اصلی ہے اور اس کے ہر صفحے پر دستخط موجود ہیں، بحث کو مزید الجھانے کے لیے یہ شوشہ بھی چھوڑ دیا گیا کہ علی زیدی کے ہاتھ میں جو رپورٹ ہے وہ جعلی ہے۔ زیادہ تر ٹاک شوز اسی بحث کے گرد گھوم رہے ہیں جبکہ وہ تصویریں اور ویڈیوز جو نہایت وضاحت کے ساتھ پیپلز پارٹی کا عزیر بلوچ کے ساتھ تعلق ثابت کرتی ہیں اس پر مسلسل خاموشی چھائی ہے اور پیپلز پارٹی اس کا کوئی جواب نہیں دے رہی۔

مثال کے طور پر عزیر بلوچ کے وہ انٹرویوز جس میں وہ خود کو پیپلز پارٹی کا کارکن اور آصف زرداری کو اپنا لیڈر بتاتا ہے، آصف زرداری کے اس وقت کے نہایت قریبی دوست اور وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا کے وہ انٹرویوز جس میں وہ عزیر بلوچ کو اپنا بھائی قرار دیتے اور اسلحے کے لائسنس بانٹنے کے عمل کا دفاع کرتے رہے۔ یا وہ جلسے جس میں پیپلز پارٹی کے ایم این اے اور ایم پی اے کے امیدوار لیاری کے جلسے میں کھڑے ہو کر عزیر بلوچ کی وفاداری کا باقاعدہ حلف لیتے رہے، یا پھر وہ ویڈیوز جس میں فریال تالپور عزیر بلوچ کووزیر اعلی سندھ قائم علی شاہ کی موجودگی میں تحائف پیش کرتی رہیں۔ کیا یہ تمام ویڈیوز عزیر بلوچ کا پیپلز پارٹی کے ساتھ تعلق ثابت نہیں کرتیں؟ پیپلز پارٹی جے آئی ٹی رپورٹ میں الجھانے کی بجائے ان سوالوں کا جواب کیوں نہیں دیتی؟

پیپلز پارٹی چاہتی ہے اسے شک کا فائدہ دیتے ہوئے یہ تسلیم کرلیا جائے کہ عزیر بلوچ سے راہ و رسم بڑھاتے ہوئے پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کو معلوم نہیں تھا کہ وہ ایک گینگسٹر ہے۔ یہ مان لیا جائے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کو معلوم نہیں تھا عزیر بلوچ اپنی مرضی سے پولیس افسروں کے تبادلے کرا رہا تھا۔ پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ ہم اس بات پہ ایمان لے آئیں کہ جب عزیر بلوچ ایک سو اٹھانوے لوگوں کو قتل کرا رہا تھا تو حکومت یکسر لا علم تھی۔ پیپلز پارٹی کی ان خواہشات کو پورا کرنا اتنا آسان نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت جتنی بھی کرپٹ اور نا اہل ہو وہ اتنی نا اہل نہیں ہو سکتی کہ اس کے پاس عزیر بلوچ کی انٹیلی جنس رپورٹ نہ ہو، اسے پتہ نہ ہو کہ اسلحے کے لائسنس لے کر عزیر بلوچ کیا کر رہا ہے اور وہ یہ جانتی نہ ہو کہ پولیس افسروں کے تبادلے اپنی مرضی سے کیوں کیے جا رہے ہیں۔ آپ کو یادہو گا کہ اس زمانے میں میڈیا کو عزیر بلوچ نے جو انٹرویوز دیے اس میں اس کی دہشت گردی سے متعلق کھلم کھلا سوال پوچھے گئے، ان سوالوں سے عیاں تھا کہ میڈیا عزیر بلوچ کے بارے میں وہ سب جانتا ہے جو پیپلز پارٹی نہ جاننے کا ناٹک کر رہی ہے۔ کیسے ممکن ہے کہ کراچی میں بدامنی پھیلانے والے ایک شخص کے بارے میں میڈیا کو تو حقائق کا علم ہو لیکن دس طرح کی انٹیلی جنس ایجنسیاں رکھنے والی حکومت کو پتہ ہی نہ ہو کہ کراچی میں بد امنی کی جڑیں کہاں ہیں۔

اگر پیپلز پارٹی کی بات مان کر اسے انجان تسلیم کربھی لیں تو بھی ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اُس وقت وفاق اور صوبے میں حکومت رکھنے والی پیپلز پارٹی کیا اتنی نا اہل اور نالائق تھی کہ وہ سالہا سال تک ہونے والی بد امنی کا سرا تلاش نہیں کر سکی اور اپنی پارٹی کے گڑھ لیاری میں کھیلے جانے والے خونیں کھیل سے لاعلم رہی؟

سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کو باتوں میں الجھانے کا فن خوب آتا ہے۔ اب عظمیٰ کاردار کو ہی دیکھئے۔ پورا زور لگا رہی ہیں یہ ثابت کرنے کے لیے کہ ان کی پرائیویٹ گفتگو کو لیک کیا گیا جو کہ ایک جرم ہے، ہر سوال پر ایف آئی اے سائبر کرائم کی شقوں کا حوالہ دے کر بتا رہی ہیں کہ کسی کی آڈیو لیک کرنے کی سزا کتنے سال کی ہے۔ یہ بھی کہہ رہی ہیں کہ ان کی مختلف ٹیلی فون کالز کو جوڑ کر پیش کیا گیا۔ لیکن وہ ایک سوال کا جواب نہیں دے رہیں کہ جو کچھ انہوں نے اپنی پارٹی کے لوگوں کے بارے میں کہا وہ واقعی انہوں نے کہا یا کوئی اور ان کے لہجے میں گفتگو کر رہا ہے اور کیا انہوں نے فیاض الحسن چوہان، پرویز خٹک، عثمان بزدار اور عمران خان کے بارے میں یہ باتیں نہیں کہی تھیں؟ یعنی عظمیٰ کاردار چاہتی ہیں جس نے آڈیو لیک کی اسے تین سال کے لیے جیل میں ڈال دیا جائے لیکن انہیں ان کی پارٹی کی سینئر قیادت کے بارے میں الزام تراشی کی سزا ہر گز نہ دی جائے۔

پچھلے دنوں پیٹرول کے بحران نے سر اٹھایا اور پھر قیمت پچیس روپے بڑھا دی گئی۔ قیمت بڑھاتے ہی پٹرول کا بحران ختم ہو گیا۔ اب آپ حکومت سے لاکھ پوچھیے کہ جناب قلت کیوں پیدا ہوئی تھی اور کیسے ختم ہو گئی؟ جواب ملے گا پاکستان میں پیٹرول انڈیا اور بنگلہ دیش سے سستا ہے۔ آپ پوچھیے پیٹرول کی مصنوئی قلت پیدا کرنے والوں سے آپ کیوں نمٹ نہ سکے؟ جواب آئے گا انٹرنیشنل مارکیٹ میں قیمتیں زیادہ ہو گئی ہیں اس لیے بڑھانی پڑیں۔ آپ ایک گھنٹے کا ٹاک شو کر لیں متعلقہ سوال کا جواب آپ حاصل نہ کر پائیں گے۔

آپ ن لیگ سے پوچھتے جائیے کہ جناب یہ گڈ نیچر کمپنی کس کی ہے؟ فضل داد عباسی کون ہے؟ قاسم قیوم کیا کام کرتا تھا؟ حمزہ شہباز کے اکائونٹ میں فلاں فلاں پیسے کہاں سے آئے؟ جواب ملے گا مالم جبہ کیس میں کارروائی کیوں نہیں ہو رہی۔ آپ پوچھیے کہ آپ کے سترہ ہزار روپے کے ملازم کے نام پر بنے اکائونٹ میں سینکڑوں ملین روپے کہاں سے آ گئے، جواب ملے گا بی آر ٹی پر تحقیقات کیوں نہیں ہو رہیں؟

ان تجربات سے اندازہ ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتیں اور سیاستدان عوام کو گھما کے رکھنے کا فن خوب جانتے ہیں۔ خود پر اُٹھنے والے سوالوں کے جواب دینے کی بجائے نئی چیزوں میں الجھاتے ہیں۔ اب یہ نہیں معلوم کہ یہ سیاسی جماعتیں عوام کو سادہ سمجھتی ہیں یا بیوقوف؟