میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ بیزاری اوربیماری دو الگ الگ کیفیات ہیں یا ان دونوں کا آپس میں تعلق ہے؟ جب بیمار شخص ہمیشہ بیزار ہوتا ہے تو بیزار کو بیمار کیوں نہیں مانا جاتا؟ میں سمجھنا چاہتا ہوں کہ بعض اوقات کوئی بڑا مسئلہ درپیش نہ ہونے کے باوجود بے چینی کی کیفیت کیوں بے کل کیے رہتی ہے؟ یہ بے چینی بیزاری کی کیا لگتی ہے؟ اکثر اوقات بے چینی کی کوئی بڑی وجہ نہیں ہوتی لیکن اثرات یوں ہوتے ہیں کہ پورا دن خراب ہو جاتا ہے بعض اوقات اس سے زیادہ۔
یہ سوال بھی اہم ہے کہ بخار، گلے، سر اور جسم میں شدید درد کی علامات کے نتیجے میں ہم کام چھوڑ کر چھٹی اختیار کر کے بستر پہ جا لیٹے ہیں تو بیزاری کی کیفیت میں ہم کام کرنے پر کیوں بضد رہتے ہیں۔ کبھی سوچتا ہوں مختلف طرح کی بیماری میں ہم چھٹی کیوں کرتے ہیں، کام کیوں نہیں کرتے تو ایک جواب یہ سامنے آتا ہے کہ ایسی کیفیت میں ہم کام پہ فوکس نہیں کر سکتے اور نتائج اچھے پیدا نہیں ہوتے۔ تو پھربیزاری کی کیفیت میں بھی تو یہی ہوتا ہے، یکسوئی ختم ہو جاتی ہے، فوکس آئوٹ ہو جاتا ہے اور تخلیقی کام ممکن نہیں رہتا۔ لہذا میں سمجھتا ہوں بیزاری کو بیماری کی فہرست میں شامل نہ کرنا بڑی زیادتی ہے۔
یہ زیادتی اکثر نزلہ اورزکام جیسی بیماریوں کے ساتھ بھی ہوتی ہے۔ کوئی کہے بیمار ہوں، سوال ہو کیا بیماری ہے، جواب آئے زکام ہے، سوال کرنے والا ہنس دیتا ہے۔ حالانکہ زکام بھی ایک ایسی بیماری ہے جس میں جسم ٹوٹتا ہے، طبعیت بے چین رہتی ہے، فوکس آئوٹ رہتا ہے، کام ہو نہیں سکتا لیکن زکام کو بیماریوں کی فہرست میں شامل نہ کرنے کی روایت نہ جانے کب، کیوں اور کیسے پڑی اور اب تک چلی آتی ہے۔
واضح رہے کہ بے چینی اور بے زاری کا تعلق مالی مسائل، گھریلو جھگڑے اور ناچاقیاں، کاروبار میں نقصان، ناکامی کا احساس اور رشتوں کے ٹوٹنے سے نہیں ہوتا۔ ان سب کے نتیجے میں جو چیز پیدا ہوتی ہے اس کا تعلق شدید نفسیاتی مسائل سے ہو سکتا ہے او ر اس کے نتیجے میں شاید ایک عدد ماہر نفسیات یا ڈاکٹر کی ضرورت پڑتی ہے لیکن بیزاری جیسی بیماری میں ایسا نہیں ہوتا۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ بیزاری ایک ذہنی عیاشی کا نام ہے اور عیاشی بھی ایسی جو خوشحال آدمی ہی افورڈ کر سکتا ہے۔ غریب کو بھلا بیزار ہونے اور رہنے کی فرصت کہاں۔
بیزاری کی سب سے بڑی الجھن یہ ہے کہ اس کی وجہ معلوم نہیں ہوتی لہذا اس کا علاج نہیں کیا جا سکتا۔ شاید کیا جاسکتا ہے لیکن بیزاری اس علاج کے راستے میں خود رکاوٹ بن جاتی ہے۔ مثلا اگر آپ شاپنگ پہ چلے جائیں، دوستوں کے ساتھ محفل کریں، لطیفے سنیں اور سنائیں، خوب زور زور سے ہنسیں تو بیزاری جیسی بیماری کا علاج ممکن ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ بیزاری آپ کو شاپنگ پہ جانے سے روک دیتی ہے، دوستوں سے ملاقات کا پروگرام بننے ہی نہیں دیتی، ہنستے ہوئے لوگ اسے برے لگتے ہیں لہذا یہ بیزاری ایک ایسی بیماری ہے جو خود اپنے ہی علاج میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ یعنی آپ خود کو خوش کرنے یا رکھنے کی دانستہ کوشش نہیں کرتے اور اس کیفیت کو بے وجہ لمبا کیے دیتے ہیں۔
بیزاری کا کوئی وقت مقرر نہیں ہوتا۔ یہ کبھی بھی چلی آتی ہے۔ بطور صحافی آپ ایک رات ڈسکہ الیکشن کی انکوائری رپورٹ کا پرنٹ نکال کے رکھتے ہیں کہ صبح یہ 133 صفحات پڑھ کے شام تک ریویو تیار کرلیں گے، یا پھر سوچتے ہیں کہ عدالت کے تین فیصلے جمع ہو گئے ہیں جنہیں پڑھنے کے لیے وقت نہیں نکالا جا سکا تھا، آج خاص مصروفیت نہیں ہے لہذا آج یہ تینوں فیصلے پڑھ چھوڑیں گے۔ لیکن آپ اس بات سے بے خبر ہوتے ہیں کہ کل صبح جب سو کے اٹھیں گے تو نا معلوم وجوہات کی بنا پر آپ پر بیزاری غالب آ جائے گی، آپ دن بھر صوفے پر دراز گزار دیں گے، کوئی کام نہ کریں گے، بیشتر فون کالز مس کریں گے۔ اور پھر یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ یہ کیفیت کب تک جاری رہے گی۔
آج کے اخبارات میرے سامنے بکھرے پڑے ہیں۔ حکومت اور ٹی ایل پی معاہدہ، وزیر اعظم کی سپریم کورٹ میں طلبی، پارلیمنٹ کا اجلاس موخر ہونے کی وجوہات، اپوزیشن کامتحد ہو کر سڑکوں پر احتجاج کرنے کا فیصلہ، ضمنی انتخابات، افغانستان کے سنجیدہ مسائل، چینی کا بحران، ڈینگی اور ایسے کتنے ہی موضوعات ہیں لکھا جا سکتا ہے لیکن غالب کے ایک شعر کا مصرع ثانی یہاں ترجمان ہو سکتاہے " پر طبیعت ادھر نہیں آتی"۔
انسانی نفسیات بھی عجیب ہے، بعض اوقات بڑے سے بڑے سانحے سے اسے فرق نہیں پڑتا۔ لیکن سڑک پر چلتے کسی شخص کے ناگوار اندازیا لہجے سے پورا دن بوجھل ہو جاتا ہے۔ میں نے نیوز رومز میں دیکھا ہے، دھماکے سے ستر لوگ مر جائیں تو سوگوار نہیں ہوتے، لیکن فوٹیج لیٹ آنے پر بوجھل دل لیے گھر جاتے ہیں کہ باقی چینلز پر سبقت نہ لے سکے۔ یوں ہر ایک کے پاس اداس، بے چین، سوگوار اور بیزار ہونے کے اپنی اپنی وجوہات ہیں اور ایسی کیفیت سے باہر آنے کے لیے بھی شاید ایک لمحہ ہی چاہیے ہوتا ہے۔
ایک بات البتہ میں نے محسوس کی ہے اگر کرکٹ میچ چل رہا ہے اور آپ کی ٹیم میچ جیت جاتی ہے تو یہ بیزاری کے خاتمے میں مددگار ثابت ہوتا ہے اور اگر ہار جائے تو یہ سفر اگلے کسی بہانے تک جاری رہتا ہے۔