ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے، کرونا نے ابھی پھیلنا ہے۔ ابھی تو یہ پاکستان میں آیا ہے، جس طرح کرونا کے مریض آسانی سے گھوم پھر رہے ہیں یقینی بات ہے یہ مزید لوگوں میں بیماری پھیلانے کا باعث بنیں گے۔ حکومت کے پاس پھیلائو روکنے کے آپشنز بظاہر تین ہیں۔
-1شہروں کولاک ڈائون کر دیا جائے
-2ہر طرح کے ملکی اور غیرملکی سفر پر پابندی لگا کر چار سے زیادہ لوگوں کو جمع ہونے سے روک دیا جائے
-3ہسپتالوں کی او پی ڈیز بند کر دی جائیں
یہ تینوں اقدامات اٹھانا کتنا آسان یا مشکل ہے اور اس کے نتیجے میں کیا فائدہ اور نقصان ہو گا، آئیے ذرا اس کا ایک جائزہ لے لیتے ہیں۔ بحث جاری ہے کیا شہروں کو لاک ڈائون کر دیا جائے؟ اس اقدام کے حامیوں کی رائے ہے کہ اگر شہروں کو لاک ڈائون نہ کیا گیا تو امکان ہے کہ کرونا وائرس شہروں سے نکل کر قصبوں اور دیہاتوں تک پھیل جائے گا، ڈسٹرکٹ ہسپتالوں میں صحت کی سہولیات نہ ہونے کے باعث ایک تو بڑے شہروں کے بڑے ہسپتالوں میں رش بڑھ جائے گا اور دوسرا چھوٹے شہروں میں آگاہی اور احتیاط کم ہونے کے باعث یہ اس قدر پھیل جائے گا کہ اسے روکنا ممکن نہیں رہے گا، اس لیے بہتر یہی ہے کہ کرونا کو شہروں سے نکل کر دیہاتوں تک پھیلنے سے روکا جائے۔ لیکن اس رائے کے مخالفین سمجھتے ہیں کہ اگر کرونا وائرس پھیل جاتا ہے تو اس سے عام لوگوں کے متاثر ہونے کے تو صرف امکانات ہیں لیکن اگر شہروں کو بند کر کے ڈیلی ویجرز اور غریب طبقے کی روزانہ آمدن کو ضرب لگائی گئی تو ان کے متاثر ہونے کے امکانات یقینی ہیں۔ یعنی یہ Probability کا Certainty سے مقابلہ ہے۔ کرونا سے متاثر ہونا Probability ہے اور بے روزگاری اور فاقہ کشی سے متاثر ہونا Certainty ہے۔ اس لیے کرونا کے پھیلائو کو برداشت کیا جا سکتا ہے غریب آدمی کو بھوک سے مرنے کے لیے نہیں چھوڑا جا سکتا۔ لیکن اس دلیل کا جواب بھی یہی ہے کہ اگر کرونا وائرس اس حد تک پھیل گیا کہ جس کاتصور کیا جا سکتا ہے تو تب بھی کاروباری، معاشی اور معاشرتی سرگرمیاں خود بخود محدود ہو جائیں گی، تب بھی تو ڈیلی ویجر ایسے ہی متاثر ہو گا جیسے پندرہ دن کے لیے سرگرمیوں کو محدود کر دینے اور شہروں کو لاک ڈائون کرنے سے ہو گا توکیا بہتر نہ ہوگا کہ صورتحال کے اُس حد تک جانے سے پہلے ہی یہ اقدامات کر لیے جائیں۔
اب ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ یورپ اور برطانیہ میں مقیم زیادہ تر پاکستانیوں کا تعلق چھوٹے شہروں یا دیہاتوں سے ہے، لاہور اور اسلام آباد کے ائیر پورٹس پر اترنے کے بعد انہیں ٹوبہ ٹیک سنگھ، گجرات، چکوال اور گوجر خان کا رخ کرنا ہوتا ہے۔ اب یہ ممکن نہیں کہ بیرون ملک سے آنے کے بعد انہیں اسی شہر میں روک لیا جائے جہاں انہوں نے لینڈکیا ہو۔
پھر شہروں کو لاک ڈائون کرنے سے پیٹرول سمیت اشیائے خورونوش کی قلت کا خدشہ پیدا ہو جائیگا جس سے نمٹنا ایک اور بڑا چیلنج ہے لہذا حکومت کے لیے شہروں کو لاک ڈائون کرنے کا فیصلہ کرنا آسان نہیں۔ لہذا فی الوقت یہی ہو سکتا ہے کہ شہروں کے مابین نقل و حرکت کو محدود کر کے جزوی لاک ڈائون کر دیا جائے، غیر ضروری نقل و حرکت روک دی جائے اور ضروری نقل و حرکت کے لیے استثنیٰ دے دیا جائے۔ حکومت کے لیے کرونا کے پھیلائو کو روکنے کا دوسرا آپشن ہر طرح کے سفر پر پابندی لگانا ہے۔ بسیں اور بس اڈے، ریل گاڑیاں اور ریلوے اسٹیشنز، جہاز اور ہوائی اڈے وہ جگہیں ہیں جہاں لوگوں کا کافی رش ہوتا ہے۔ جہاز، بس اور ٹرین کی سیٹ پر بیٹھا ایک شخص جب کھانستا اور چھینکتا ہے توبرابر میں بیٹھے دوسرے شخص کے پاس وائرس کو قبول کر لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ کچھ ریل گاڑیاں تو بند کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے مگر اس سے ہو گا یہ کہ باقی کی ریل گاڑیوں پر رش بڑھ جائے گا لوگ سفر کرنے کے لیے متبادل کا انتخاب کریں گے اوردوسری ٹرین یا بس پکڑیں گے۔ لوگوں کو منزل تک پہنچنے میں مشکل کا سامنا ضرور کرنا پڑے گا لیکن کرونا کے پھیلنے کے امکانات باقی رہیں گے۔ لہذا ٹرین اور بس آپریشن کچھ دن کے لیے مکمل طورپر روک دینا ہی ایک ایسا راستہ ہے جس کے ذریعے اس وبا کے پھیلائو کوکسی حد تک روکا جا سکتا ہے۔
تیسرا راستہ ہسپتالوں کی اوپی ڈیز کو بند کرنا ہے، گذشتہ روزکے کالم میں بھی عرض کی تھا کہ ہسپتالوں کی او پی ڈیز وہ جگہیں ہیں جہاں ہر وقت لوگوں کا ہجوم رہتا ہے اور ہجوم بھی ان لوگوں کاجو طبیعت کی خرابی کے باعث ہی ہسپتال آتے ہیں۔ ان میں کرونا کے مریض موجود ہونے کے بھی کافی امکانات ہوتے ہیں۔ لہذا بہتر آپشن یہی ہے کہ ہسپتالوں کی ان او پی ڈیز کو کچھ دن کے لیے بند کر دیا جائے جن کا تعلق ایمرجنسی سے نہیں ہے۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ آجکل لوگ کہاں کہاں جمع ہو رہے ہیں۔ ہسپتالوں میں، مسجدوں میں، شاپنگ مالز میں، بسوں، ریل گاڑیوں اور ہوائی جہازوں میں۔ لہذا ان تمام جگہوں پر لوگوں کی سرگرمیاں محدود کر دی جائیں تو کرونا کو پھیلنے سے روکا جا سکتا ہے۔
اس مہم میں عوام کا کردار بھی بہت اہم ہے جو ابھی تک اس مسئلے کو سنجیدہ نہیں لے رہے اور سادہ مسلمانوں کی طرح سوال کر رہے ہیں کہ ہاتھ ملانا سنت ہے تو یہ نقصان دہ کیسے ہو سکتاہے۔ ایسے میں علمائے کرام کو اپنا کردار ادا کرنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے کہ یہ گریز کیوں ضروری ہے۔ ایک اور جملے نے کرونا سے بچائو کی مہم کو نقصان پہنچایا ہے کہ "کرونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے "۔ اس جملے نے لوگوں کو Casual بنا دیا ہے ان کی ذہنوں میں بیٹھ گیا ہے کہ کرونا کوئی ڈرنے کی چیز نہیں اس کے لیے خاص اقدامات کی بھی ضرورت نہیں۔ نہیں جناب کرونا ڈرنے کی چیز ہے۔ اگر یہ پھیل گیا تو جان نہ بھی جائے پوری قوم کو معاشی طور پر ہلا کے رکھ دے گا۔