Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Dhoka Hua Nahi, Maryam Ne Khud Dhoka Khaya

Dhoka Hua Nahi, Maryam Ne Khud Dhoka Khaya

دیکھئے تومریم کے ساتھ کیا ہوا۔ پیپلز پارٹی انہیں استعفوں اور لانگ مارچ کا جھانسا دے کر بے نظیر کی قبر تک لے گئی۔ وہی بے نظیر جسے ان کے والد گالیاں دیا کرتے تھے۔ وہی گڑھی خدا بخش جس میں لیٹے بھٹو کو نواز شریف جعلی شہید کہا کرتے تھے، جس بے نظیر کی کردار کشی کے لیے پفلنٹس جہاز سے گرائے گئے تھے، اس بے نظیر کی قبر پر پھول مریم نواز کے ہاتھوں سے ڈلوائے گئے۔

مریم بے نظیر کی قبر پر پھول ڈال رہی تھیں گویا ماضی کے بیانات پر معافی مانگ رہی تھیں۔ پیپلز پارٹی نے نہایت کامیابی کے ساتھ مریم کواپنی عدالت میں لا کھڑا کیا، ان سے پیپلز پارٹی زندہ باد کا نعرہ لگوایا اور انہیں اس قابل نہ چھوڑا کہ آئندہ وہ آصف زرداری اور بلاول کے خلاف ایک لفظ بھی استعمال کر سکیں۔ جب مریم یہ سب کر چکیں تو سوال ہوا کیسے استعفے اور کونسا لانگ مارچ؟

پی ڈی ایم کو ٹوٹنا تو تھا لیکن یہ اتنی جلدی ہو جائے گا اس کی توقع خود فضل الرحمن اور مریم نواز بھی نہیں کر رہے تھے۔ آصف زرداری کامیاب کھلاڑی کی طرح تاش کی میز سے سب کچھ سمیٹ سماٹ کے بھاگ گئے اور باقی ایک دوسرے کا منہ تکتے رہ گئے۔ سبھی کو معلوم تھا پیپلز پارٹی کبھی استعفے نہیں دے گی، ہر کوئی جانتا تھا پیپلز پارٹی اس حکومت کو گھر بھیجنا ہی نہیں چاہتی، سب جانتے تھے عین وقت پہ پیپلز پارٹی موقع سے غائب ہو جائیگی، اگر کوئی نہیں جانتا تھا تو وہ مریم اور فضل الرحمن تھے، کوئی خود فریبی کا شکار ہو تو کیا کیجئے، کوئی دھوکہ کھانے کو تیار بیٹھا ہو تو کیا کیجئے؟

فضل الرحمن تو دہری مصیبت کا شکار ہیں۔ ایک طرف پی ڈی ایم کے دیے کی لو ٹمٹما رہی ہے تو دوسری طرف ان کی پارٹی ان کے درپے ہے۔ ان کی پارٹی انہیں ہی بے دخل کرنے پر آمادہ ہے۔ حدیثوں اور قرآنی آیات کے حوالے دے کر بتایا جا رہا ہے کہ مولانا جھوٹے ہیں، کارکنوں سے کہا جا رہا ہے جھوٹوں کا گھیرائو کیا جائے۔ مولانا کو پی ڈی ایم کی بقا ہی نہیں خود اپنی بقا کا چیلنج بھی درپیش ہے۔ پی ڈی ایم مذاق بن کے رہ گئی ہے، مولانا کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔

دلچسپ بات ایک اور ہے۔ اب یہ تو ہو نہیں سکتا کہ مولانا اپنی ناکامی اپنے ذمہ لے لیں، لہذا انہوں نے بھی پی ڈی ایم کے ٹوٹنے اور اس کے ناکام ہونے کی ساری ذمہ داری اٹھا کر مریم پہ ڈال دی ہے۔ نجی محفلوں میں وہ یہ کہتے پائے جا رہے ہیں کہ سارا کام مریم نے خراب کیا ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ مریم نواز نے پی ڈی ایم کے صدر کو بائے پاس کر کے وہ بیانات دیے جو انہیں خود نہیں دینے چاہیے تھے۔ استعفے دینے کا بیان ہو، یا لاہور کے جلسے میں آریا پار کا نعرہ، مولانا سمجھتے ہیں کہ تمام چیزوں کو حکمت کے ساتھ لے کر چلنا چاہیے تھا، مولانا کو یہ بھی لگتا ہے کہ تمام کارڈز ایک ساتھ نہیں کھیلنے چاہیے تھے اور ایسا کرنا مریم کی سنگین غلطی تھی۔ شنید ہے کہ مولانافضل الرحمن نے فون کر کے نواز شریف کو مریم کی شکایت بھی لگائی اور اپنے تمام گلے شکوے ان کے سامنے رکھے ہیں۔

پاکستان کی تاریخ میں بہت سے الائنس بنے، کچھ نتیجہ خیز ہوئے، کچھ ہدف کے حصول میں ناکام رہے۔ لیکن سالہا سال کی جدو جہد میں ناکام ہونے کے باوجود، انہوں نے بہت کچھ حاصل کیا۔ یہ پہلا الائنس ہے جو کم ترین مدت کے لیے بنا، جو ایک غیر فطری اتحاد تھا، جسے ٹوٹنا ہی تھا۔ جس نے کچھ حاصل نہ کیا۔ جو عوام کی توجہ حاصل نہ کرپایا، یہ حکومت کے غیر مقبول ہونے کے باوجود ان کے مخالفین کو سڑکوں پہ نہ لا پایا۔ یہ ناکامی صرف ناکامی نہیں ہے۔ یہ بہت سے لوگوں کے سیاسی کیرئیر کے خاتمے کا خدشہ بن کرسامنے آئی ہے۔

مولانا فضل الرحمن کا کیرئیر دوراہے پہ کھڑا ہے۔ اتنی غیر یقینی کی صورتحال سے وہ کبھی دوچار نہ ہوئے ہوں گے۔ شاید پہلی بار وہ سوچ میں پڑ گئے ہوں گے کہ صورتحال کو کیسے سنبھالیں۔ دوسری طرف مریم نواز کا سیاسی مستقبل پہلی بارشدید خطرے سے دوچار ہوا ہے۔ لاہور نے انہیں مسترد کیا۔

پارٹی کے اندر بغاوت ہے، ان کی پارٹی نے انہیں مسترد کر دیا ہے۔ ڈیل بن نہیں پا رہی، باہر وہ جا نہیں پا رہیں، نواز شریف کے لیے وہ کوئی راستہ نہیں نکال پائیں۔ بلاول نے سندھ بلانے کے بعد ان کے بیانیے کو مسترد کر دیااور استعفے دینے کے عمل سے کنارہ کش ہو گئے ہیں۔

آصف زرداری نے سیاسی کارڈز بہت عمدگی سے کھیلے ہیں۔ انہوں نے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے تحریک انصاف ہی کی مخالفت نہیں کی، مسلم لیگ ن اور مولانا فضل الرحمن کو بھی پچھاڑ کے رکھ دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کا سندھ سیاسی طور پر ان کے ہاتھوں میں محفوظ ہے۔ دائو پر ان کا کچھ لگا ہو ا نہیں ہے۔ مگر مریم؟

مریم کشتیاں جلا کر میدان میں اتری تھیں۔ فوج اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جاتے ہوئے انہوں نے آر یا پار کا نعرہ لگا دیا تھا۔ وہ جانتی تھیں کہ حکومت کو گھر نہ بھیج پائیں تو صرف ناکام نہیں ہوں گی، ان کا سیاسی مستقبل ختم ہوجائے گا۔

عسکری قیادت کو للکارتے ہوئے انہیں علم تھا سسٹم کی بساط نہ لپٹ پائی تو ایسی شکست مقدر ہو گی جو دوبارہ انہیں سنبھلنے نہ دے گی۔ اب وہ کس سے کہیں کہ ان کے ساتھ دھوکہ ہوا، اب وہ کس سے شکایت کریں گی کہ ٹارگٹ کے حصول کے قریب تھیں مگر پیپلز پارٹی نے انہیں دغا دی۔ حقیقت یہ ہے کہ مریم کو دھوکہ دیا نہیں گیا ہے انہوں نے خود دھوکہ کھایا ہے۔