Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Mix Hukumat Kab Tak Chalegi?

Mix Hukumat Kab Tak Chalegi?

یہاں آج کل جو کچھ ہو رہا ہے، پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اسے بہت دیر تک یاد رکھاجائے گا۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی اور ناکامی دونوں کی اپنی اہمیت ہو گی۔ بالخصوص اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی اور عمران خان کی حکومت ختم کر دی گئی تو اگلی نسلوں تک کے لیے گفتگو اور تنقید کا بہت سا مواد سالہا سال تک کے لیے موجود رہے گا۔

سنا ہے اسحاق ڈار نے پینٹ کوٹ پہن کر ٹائی باندھ لی ہے اور پاکستان کی فلائیٹ لینے کو بے قرار ہیں۔ اگلا بجٹ پیش کرنے کی تیاری کر رہے ہیں اور دعوے کر رہے ہیں کہ نومبر دسمبر تک ڈالر کو 150 تک لے آئیں گے۔ سنا ہے مولانا فضل الرحمن صدر پاکستان بننے کو بے قرار ہیں۔ سنا ہے وہ شخص وزیر اعظم بننے کی تیاری کر رہا ہے جوسمجھتا ہے کہ پاکستان نے Absolutely Not کہہ کر غلطی کی اور یہ کہ روس کی مذمت نہ کر کے پاکستان نے یورپی یونین کو ناراض کر دیا۔

سنا ہے وہ صاحب وزیر خزانہ بننے کی خواہش لیے بیٹھے ہیں جن کے خیال میں او آئی سی کانفرنس کا پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں اور یہ کانفرنس بلا کر پاکستان بھارت کے ایجنڈے کو پورا کر رہا ہے۔ سنا ہے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں ایک شخص آئینی ترمیم کے ذریعے چوتھی بار وزیر اعظم بننے کی پلاننگ کر رہا ہے وہ جسے پاکستان کی عدالت نے مجرم قرار دیاتھا۔

تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی تو اچانک بہت سے معاملات میں پیش رفت ہو گی۔ عدالتی محاذ پر منظر بدل جائے گا۔ نئے وزیر اعظم اور ڈپٹی وزیر اعظم اپنے اپنے خاندان اور پارٹی رہنمائوں کے کیسز ختم کرانے کے لیے سرگرم ہو جائیں گے۔ پوری کوشش ہو گی کہ جلد از جلد اپنے تمام کیسز میں بریت حاصل کر لی جائے تاکہ کل کو برملا کہا جا سکے دیکھئے ہمارے خلاف کچھ ثابت نہ ہوا اور ہمیں عدالتوں نے بری کر دیا۔

علاوہ ازیں عدالت سے مفرور قرار دیے گئے کئی افراد واپسی کا رخ کریں گے۔ ملک مقصود کو بھی گھر کی چوکھٹ دیکھنا نصیب ہو گی جو گذشتہ ہفتے اپنے بھائی کے جنازے میں بھی شرکت نہ کر سکا اور ویڈیو کال پر دھاڑیں مار مار کر روتا رہا۔ وہ جن کے علاج ادھورے چل رہے ہیں انہیں بھی جلد شفا ہو گی اور وہ اپنی اپنی دوا لے کر لوٹ آئیں گے۔

تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد سب سے پہلا قتل احتساب کا ہو گا۔ احتساب کا عمل معطل ہو جانے کے امکانات سو فیصد سے بھی زائد ہیں۔ اس کے بعد احتساب صرف بکری چوروں کا ہوا کرے گا۔ بڑے بڑے بکرے قانون کی گرفت سے صاف بچ نکلیں گے۔ دوسرا قتل عوام کی امیدوں کا ہو گا جنہیں لگتا تھا کہ پاکستان میں سیاسی روایات بدل چکی ہیں، ریاست نے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ لیا ہے، وقت بدل گیا ہے اور ماضی پیچھے رہ گیا ہے۔ عوام کو خبر ہو کہ سیاست نوے کی دہائی کی جانب لوٹ رہی ہے۔ جنہیں سکیورٹی رسک قرار دیا گیا اب اقتدار میں لائے جائیں گے، جنہیں مودی کا یار کہا گیا پھر سے مسند پر بٹھائے جائیں گے۔

لیکن بڑا سوال یہ ہے کہ یہ سب آسانی سے ہضم ہو جائے گا، عوام پھرسے ایک وزیر اعظم کے جانے پر مٹھائیاں بانٹیں گے اورچڑھتے سورج کو سلامی پیش کرنے لگیں گے؟ کیا لوگ انہی کو مسیحا مان لیں گے جنہیں ڈاکو قرار دے کر نکال دیا گیا تھا؟ شاید اس بار ایسا نہ ہو۔ پاکستان میں اب بھی ایسے لاکھوں لوگ موجود ہیں جو سمجھتے ہیں عمران خان اپنی تمام تر خرابیوں کے باوجود پاکستان کے لیے مخلص ترین شخص ہے جسے نہ کاروباری مفادات عزیز ہیں نہ مال جمع کرنے کا شوق۔ ایسے بہت سے لوگ ہیں جو عمران خان کے نکالے جانے کے عمل کو داخلی اور بین الاقوامی سازشوں سے ملا کر دیکھتے ہیں۔

پچھلے چند جلسوں میں عوام کی بڑی تعداد مہنگائی کو بھول بھال کر جوش خروش کے ساتھ عمران خان کو سننے آئی اور ان کے بیانئے کا اثر قبول کرتی ہوئی دکھائی دی۔ ان حالات میں مختلف جماعتوں پر مشتمل نام نہاد قومی حکومت کامیابی کے ساتھ چلتی دکھائی نہیں دیتی۔ کپتان کے کارکن غصے میں ہیں۔ دنیا بھر سے 27 مارچ کے جلسے میں آنے کے لیے رخت سفر باندھ رہے ہیں۔ سڑک اور سوشل میڈیا دونوں کا محاذ سنبھالنے کو بے قرار ہیں۔ دیکھئے کون کون ان کی زد میں آتا ہے اور کون کون بچ پاتا ہے۔

پاکستان کی مقتدرہ اس صورتحال سے لاتعلق نہیں رہ سکتی۔ یہی مقتدرہ جب ایک وزیر اعلی تک کی تبدیلی کا مطالبہ کرتی رہی تو آج نیوٹرل کیسے ہو سکتی ہے۔ بہت سے سوال ہیں جو لوگوں کے ذہنوں میں ہیں، زبان پر آئے تو کئی اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے، ان اداروں کو بھی جن کی ساکھ کو نقصان پہنچنے کا مطلب پاکستان کو نقصان پہنچنا ہے کیوں کہ یہ ہائبرڈ وار فئیر کا زمانہ ہے اور دشمن پاکستان کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔

تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد نئی مکس حکومت کا چلنا بھی آسان دکھائی نہیں دیتا۔ آج عمران خان کو گھر بھیجنے کا باعث بننے والے ارکان اسمبلی جب کل خود نا اہل ہو جائیں گے تو نئی حکومت کے لیے 172 افراد پورے کرنا ممکن نہیں رہے گا، دوسری طرف عمران خان اپنے غصیلے کارکنوں کو لے کر سڑکوں پر ہوں گے۔ نہیں معلوم کہ نئی مکس حکومت کیسے چلے گی اور کب تک چل پائے گی۔