امید کے دھاگے سے بندھا تحریک انصاف کا کارکن خود کو مایوسی کا شکار ہونے سے بچانے کے لیے مثبت پہلوئوں کی تلاش میں لگا رہتا ہے۔ مباحثوں کی نشست میں کچھ دلائل دہرا دہرا کے دیے جاتے ہیں۔ مثلا کہا جاتا ہے کہ عمران خان ماضی کے حکمرانوں کی طرح کرپٹ نہیں ہیں، بتایا جاتا ہے کہ تیس سال کی خرابیاں دور کرنے میں کچھ وقت تو لگتا ہے، دلیل دی جاتی ہے کہ عمران خان پانچ نہیں اگلے بیس سال کا منصوبہ بنا کر کام کر رہے ہیں، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مافیاز نے عمران خان کو گھیر رکھا ہے ان سے جان چھڑانے میں وقت تو لگے گااور یہ بھی کہ عمران خان کو ماضی کے حکمرانوں کے قرضے واپس کرنے پڑ رہے ہیں جس کی وجہ سے معیشت پہ دبائو ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ایسے دلائل دینے والے خود فریبی کا شکار ہیں، مگر میں تھوڑا سا مارجن دیتے ہوئے یہ کہوں گا کہ یہ لوگ مایوس اور نا امید ہونے میں جلدی نہیں کر رہے اوراپنی حکومت کو ایک اور موقع دینا چاہتے ہیں۔
دوسری طرف وہ کارکن جنہوں نے مایوس ہونے میں جلدی کی ان کے پاس اپنے دلائل ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ تحریک انصاف کو معمول کی حکومت کرنے کے لیے منتخب نہیں کیا گیا تھا بلکہ عمران خان کو ریفارمز یا تبدیلی لانے کے لیے وزیر اعظم بنایا گیا تھا۔ پولیس کا شعبہ اس میں سر فہرست تھا کیونکہ عوام کو خیبر پختونخواہ کا پولیس ماڈل دکھا کر تبدیلی کا وعدہ کیا گیا تھا۔ دوسرا شعبہ صحت اور تعلیم کا تھا، اس کے لیے بھی خیبر پختونخواہ میں لائی جانے والی تبدیلی کی تصویر دکھائی گئی تھی۔ مایوس ہو جانے والوں کا خیال ہے کہ دو سال کے دوران ان تینوں شعبوں میں اصلاحات لانے کے لیے کوئی عملی قدم نہ اٹھایا گیا اور یہ شعبے معمول کے مطابق چل رہے ہیں۔ پولیس میں رشوت کا نظام آج بھی جوں کا توں ہے بلکہ رشوت کے ریٹس مہنگائی کے تناسب سے بڑھ گئے ہیں۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں آج بھی کوئی اپنے بچوں کو پڑھانے کو تیار نہیں جبکہ صحت پرائیویٹ ہسپتالوں سے خریدنی پڑتی ہے۔ ایف بی آر کا نظام جوں کا توں ہے، کسی کی فائل کھل جائے تو قانونی تقاضے پورے رکھنے والے شخص کی زندگی بھی اجیرن بنا دی جاتی ہے، ایک چھوٹا کاروباری بھی پچاس ہزار روپے دے کر ہی جان چھڑانے میں عافیت سمجھتا ہے۔ الیکشن کیمپین کے دوران اپنے ٹی وی پرواگرام کے لئے میں نے داروغہ والا لاہور کے رہائشیوں سے پوچھا کہ وہ عمران خان کو ووٹ کیوں دے رہے ہیں تو کہنے لگے کہ اس علاقے کا سب سے بڑا مسئلہ آلودگی ہے یہاں بے شمار فیکٹریاں ہیں جہاں ٹائر جلائے جاتے ہیں فضا ہر وقت آلودہ رہتی ہے، گھر کی دیواروں، پردوں اور صوفوں تک پہ کالک جمی رہتی ہے، بچے اور بزرگ سانس اور پھیپھڑوں کی بیماری میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ عمران خان آئیں گے تو فیکٹری مالکان رشوت دے کر ٹائر نہیں جلا سکیں گے۔ اب جا کر پوچھا تو پتہ چلا ہے کہ ماحولیات والوں نے اپنے ریٹس بڑھا دیے ہیں، دن کی بجائے رات میں ٹائر جلا لیے جاتے ہیں تاکہ دھواں رات کی تاریکی کا حصہ بن جائے مگر حالات جوں کے توں ہیں۔
بہت سے لوگوں کو امید تھی کہ عمران خان آئیں گے تو کھیلوں کا معیار بلند ہو جائے گا، کرکٹ میں تو میرٹ آئے گا ہی، دیگر کھیلوں میں بھی اصلاحات لائی جائیں گی اور اسپورٹس بورڈ بھی متحرک ہو کر عالمی کھیلوں میں رنگ دکھانے لگے گا۔ مگر مایوس ہو جانے والوں کا خیال ہے کہ باقی کھیلوں کو تو چھوڑیے کرکٹ میں بھی اصلاحات نہ لائی جا سکیں اور حالات ویسے کے ویسے ہی ہیں۔
معاشی میدان میں تباہی مچی ہے، گروتھ ریٹ پانچ سے گر کر منفی میں چلا گیا، واضح رہے کہ کورونا پر اس کی ذمہ داری بہت کم عائد ہوتی ہے۔ دو سال میں ریکارڈ نوٹ چھاپے گئے ہیں اور قرضوں میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔
جس وقت یہ تحریر لکھی جا رہی ہے دو سالہ کارکردگی بتانے کے لیے وفاقی وزراء کی ایک پریس کانفرنس جاری ہے جس میں ویسی ہی باتیں کی جار ہی ہیں جیسی ماضی میں ہوتی تھیں۔ عمر ایوب صاحب فرما رہے ہیں کہ دس لاکھ نوکریاں پیدا کررہے ہیں، سرکلر ڈیٹ کو ختم کر دیں گے۔ شبلی فراز نے فرمایا ہے کہ خوشحالی کا دور شروع ہو نے والا ہے۔ فہمیدہ مرزا بتا رہی ہیں کہ سپورٹس بورڈ میں اصلاحات لا رہے ہیں۔ شیریں مزاری نے فرمایا پچھلی حکومتوں نے انسانی حقوق پہ کوئی کام نہیں کیا لیکن ہماری منسٹری بہت اچھی چل رہی ہے۔
فواد چودھری بتا رہے ہیں کہ حکومت کی دو سالہ کارکردگی کافی زبردست رہی، ہم نے امپورٹ اکانومی کو ایکسپورٹ اکانومی میں تبدیل کیا۔ آپ جملوں پہ غورکیجئے۔"کر رہے ہیں "، "ہو رہا ہے "، " اصلاحات لا رہے ہیں "، " پلاننگ کر رہے ہیں "۔ مستقبل کے صیغوں سے تراشے ایسے جملے ہم ماضی میں بھی سنتے آئے ہیں اب بھی سن رہے ہیں۔ فرق کچھ بھی نہیں۔ فواد چودھری نے کچھ دن پہلے ایک انٹرویو میں بالکل صحیح کہا تھا کہ عوام نے تحریک انصاف کو معمول کے نٹ بولٹ ٹھیک کر نے کے لیے منتخب نہیں کیا بلکہ تبدیلی لانے کے لیے منتخب کیا ہے۔ اگر تبدیلی نہیں آ رہی تو معمول کی گورننس کو کامیابی قرار نہیں دیا جا سکے گا۔
پریشانی کی بات یہ نہیں ہے کہ حکومت مختلف اداروں میں اصلاحات نہیں لا پائی، پریشانی کی بات تو یہ ہے کہ اصلاحات کے عمل کا آغاز تک نہیں ہوا ہے۔ پریشانی کی بات یہ ہے کہ تبدیلی کے منصوبے زیر غور نہیں ہیں۔ مثال کے طورپر پولیس ہی کو لیجئے، تبدیلی تو نہیں آئی چلیں کوئی بات نہیں، لیکن کیا کوئی ایسا منصوبہ زیر غور ہے جس سے اگلے تین سال میں پولیس کا نظام ٹھیک ہو جائے اور رشوت کے بغیر تھانے میں میرٹ پر انصاف ملنے لگے۔ اگر ایسا ہے تو تحریک انصاف کی حکومت کامیاب ہے ورنہ یقینا تشویش کی بات ہے۔