Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Drama Serial Urtghal Se Jo Mein Ne Seekha

Drama Serial Urtghal Se Jo Mein Ne Seekha

لاک ڈائون کے دوران ڈرامہ سیریل ارطغرل دیکھ کر میں نے زندگی کی سات حقیقتوں کے بارے میں سیکھا۔ مقصدسے اہم کوئی چیز نہیں، خوف سے نجات ضروری ہے، غصے پر قابوپانا اہم ہے، کامیابی پر یقین رکھنا، غداری کا توڑکرنااور سازشوں کا جوا ب ڈھونڈنا ناگزیر ہے۔ دانائی مومن کی میراث ہے اور اگر یہ نعمتیں عطا ہو جائیں توانسان کو کامیاب ہونے سے کوئی روک نہیں سکتا۔

میں نے سیکھا کہ انسان کی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت کی حامل جو چیزہونی چاہیے وہ "مقصد" ہے۔ رشتہ داریاں، تعلقات، دوستی اور دشمنی سب کم حیثیت کی چیزیں ہیں۔ مقصد ان سب سے بڑھ کر ہے۔ اصل اہمیت نصب العین کو حاصل ہے۔ جب مقصد بڑا ہوتا ہے تو قربانی کا جذبہ خود بخود پیدا ہوجاتا ہے، مقصد کے حصول کی خاطر اپنی سب سے قیمتی چیزوں کی قربانی بھی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ زمین، قبیلہ، بھائی بہن، دوست احباب اور مال و اسباب۔ مقصد کے حصول کے لیے سب کچھ قربان کیا جا سکتا ہے۔

میں نے سیکھا کہ خوف صلاحیتوں کو کھاجاتا ہے۔ نقصان کا خوف، اقتدار، مال، جان، اولاد، ناموس اور اختیار چھن جانے کا خوف۔ ہار جانے کا خوف۔ خوف آگے بڑھنے سے روکتا ہے، قدم اٹھاتے وقت اعتماد کا دشمن بن جاتا ہے، وسوسے اور واہمے پیدا کرتا ہے۔ جس کے نتیجے میں کامل یقین کے ساتھ حکمت عملی بنانے میں دشواری پیدا ہوتی ہے، سقم باقی رہ جاتاہے، ہار مقدر بن جاتی ہے، خوف جیت جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں کمزوری انسان کے اندر گھر کر لیتی ہے جو ہمیشہ سائے کی طرح اس کا پیچھا کرتی ہے۔ لہذا اگر آغاز سفر میں ہی خوف سے نجات حاصل کر لی جائے تواعتماد بڑھ جاتا ہے، کامیابی کے امکانات روشن ہو جاتے ہیں۔

میں نے سیکھا کہ غصہ انسان کی بہت بڑی کمزوری ہے اور اس سے بھی بڑھ کر غصے کا برملا اظہار۔ غصہ حکمت عملی بنانے کی صلاحیت ختم کر دیتا ہے، یہ انسان سے غلطیاں کراتا ہے۔ غصے میں کیے گئے فیصلے اکثر اوقات مبنی بر حقائق نہیں ہوتے۔ غصہ سوچنے سمجھنے کا موقع نہیں دیتا۔ عین اُس وقت جب حریف نہایت باریک بینی اور مہارت کے ساتھ حکمت عملی بنا رہا ہوتا ہے۔ غصے میں مبتلا شخص سطحی فیصلے کر رہا ہوتا ہے۔ حالات کا صحیح تجزیہ اس کے بس میں نہیں رہتا اور شکست اس کا مقدر بن جاتی ہے۔

میں نے سیکھا کہ یقین ایک طاقت کا نام ہے جو ہر لمحے آپ کی مددگار ہوتی ہے۔ مقصد کے صحیح ہونے کا کامل یقین۔ مقصد کے حصول کے لیے راستے کے صحیح انتخاب کاپختہ یقین۔ صحیح راستے پر مستقل مزاجی سے کاربند رہنے کا عزم اور حتمی جیت کا کامل یقین۔ یقین ایمان کی طرح ہے جس سے لمحے کو بھی ہٹایا نہیں جا سکتا۔ یقین کمزور لمحے میں طاقت بن جاتا ہے۔ یقین حوصلہ دیتا ہے، آگے بڑھنے کی قوت پیدا کرتا ہے اور مایوسی سے بچاتاہے۔ یقین کے بغیر راستہ طویل ہو جاتا ہے، مشکلات خوف میں مبتلا کر کے واپس لوٹ جانے کو مجبور کر دیتی ہیں۔ یقین نہ ہو تو انسان جانتے بوجھتے ہوئے دشمن کی چالوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ گویا یقین کے بغیرمقصد کا حصول نا ممکن ہے۔

میں نے سیکھاکہ دھوکہ اور غداری انسان کے ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ دھوکہ دل توڑنے کا باعث تب بنتاہے جب کسی سے ضرورت سے زیادہ توقعات وابستہ کر لی جائیں۔ جب انسان دھوکہ دہی کو انسانی فطرت تسلیم کر کے آنکھیں کھلی رکھنے کا فن سیکھ لے تو یہ الٹا اس کی طاقت بن جاتی ہے۔ غدار کو تلاش کرنا اور اسے اس کے انجام تک پہنچانا کامیابی کی دلیل ہے ایسا نہ کرنے کی صورت میں حریف آپ کو چاروں شانے چت کر دے گا، ناقابل تلافی غلطی کا ازالہ ممکن نہ رہے گا اور پچھتاوا مقدر بن جائے گا۔

میں نے سیکھا کہ سازش کرنے والے کبھی چین سے نہیں بیٹھتے۔ ذاتی مفادات اور حسد کی بنیادپر ہر وقت سازش کا جال بنتے رہتے ہیں۔ سازش کا جواب حکمت عملی سے دیا جا سکتا ہے۔ سازشیوں کو کامیاب ہونے دینے کا مطلب اپنی ناکامی کو دعوت دینا ہے۔ لہذا کامیابی کے حصول کے لیے لازم ہے کہ سازشوں کا توڑساتھ ساتھ ہوتا رہے یعنی سفر کے دوران راستے میں آنے والے کانٹوں کو ساتھ ساتھ ہٹایا جاتا رہے تاکہ وہ مسافر کو زخمی کرنے کا باعث نہ بنیں۔

میں نے سیکھا کہ دانائی، سوجھ بوجھ اور فہم و فراست قدرت کی عطا ہے یہ ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی۔ نیک نیت لوگ بھی اگر فہم و فراست سے عاری ہوں تو کامیابی کو نہیں پہنچ سکتے۔ دانائی سے عاری فیصلے نیک نیتی پر مبنی ہی کیوں نہ ہوں انسان کوقابل رحم حالت میں مبتلاکر سکتے ہیں۔ دانائی مومن کی میراث ہے، یہ اس کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ خیال غیب سے انسان کے ذہن میں آتاہے جو کسی بھی کام کے آغاز کی تحریک بنتاہے۔ دانائی دانا لوگوں کی محفل سے ملتی ہے۔ دانا لوگ علم اور دانائی کے ذریعے انسان کے اندر یقین کی شمع روشن کرتے ہیں، صحیح راستہ سجھانے میں معاونت کرتے ہیں۔ پریشانیوں سے نجات دلاتے ہیں، یکسوئی پیدا کرنے میں مدد گار ہوتے ہیں اور اطمینان قلب کا باعث بنتے ہیں۔

میں نے سیکھا کہ پیسہ اور عورت انسان کی بڑی کمزوریاں ہیں۔ انسانی فطرت کو ذہن میں رکھتے ہوئے عورت اور پیسے کوہمیشہ بطور ہتھیار استعمال کیا گیا ہے۔ دشمن کی سازش میں استعمال ہونے والا یہ نہایت مہلک ہتھیار ہے۔ اس ہتھیار کا وار جھیلنے کے لیے کردار کی مضبوطی نہایت اہم ہے۔ ان کمزوریوں کا حامل شخص کامیابی کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔

میں نے سیکھا کہ مقصد ہی سب کچھ ہے، چھوٹا اور عارضی نہیں، بڑا اور دائمی مقصد۔ بڑامقصد بڑا سوچنے سے پیدا ہوتا ہے جس کے حصول کی جدو جہد انسان کو ہر لمحہ نکھارتی ہے۔ مقصد حاصل ہو جائے تو کیا کہنے اور نہ بھی ہو تو آنے والوں کے لیے مشعل راہ بن جاتا ہے۔