حمزہ شہباز 18 مہینے سے جیل میں ہیں، منی لانڈرنگ، آمدن سے زائد اثاثوں، رمضان شوگر ملز اور دیگر کیسز میں نیب عدالت میں ان کی آمد معمول ہے۔ شہباز شریف بھی منی لانڈرنگ کیس میں احتساب عدالت نمبر2 میں جج جواد الحسن کے سامنے پیش ہوتے ہیں۔ پچھلی کچھ سماعتیں عدالت میں جا کر کور کرنے کے بعد مشاہدے میں کچھ ایسی چیزیں آئیں جو اخبار پڑھ کر اور ٹی وی پہ دیکھ کر نہیں آ سکتی تھیں۔سب سے پہلے تو عدالت میں ہونے والی کارروائی دیکھ کر کیس کی رفتار کا اندازہ ہوا، منی لانڈرنگ کے اس کیس میں 110 گواہان ہیں جن میں سے ابھی تک صرف چار گواہان کی جرح مکمل ہوئی ہے۔ 16 جنوری کو ہونے والی سماعت میں چار گھنٹے کے دوران ایک گواہ کی جرح مکمل ہوئی تھی، پھرایک گھنٹے تک دوسرے گواہ سے جرح ہوئی مگر نامکمل رہ گئی اور سماعت 20 جنوری تک کے لیے ملتوی کر دی گئی۔
گذشتہ روز 20جنوری کو شہباز شریف کے وکیل بیرسٹر امجد پرویز ناسازی طبع کے باعث نہ آ سکے اور جرح نہ ہو سکی، محض ایک گواہ کا بیان ہی قلمبند ہوا اور سماعت 26 جنوری تک کے لیے ملتوی کر دی گئی۔ احتساب عدالت کے جج جواد الحسن چاہتے تھے کہ اگلی سماعت 22 جنوری کو رکھی جائے لیکن وکلا 27 جنوری کے لیے اصرار کر رہے تھے۔ واضح رہے کہ اس کیس میں 110 گواہان کے بیانات قلم بند ہونے ہیں اور پھر ان پر بحث ہونی ہے۔ نتیجہ کب سامنے آئے گا کوئی نہیں جانتا۔
احتساب عدالت میں جا کر ایک اور چیز میرے مشاہدے میں آئی اور وہ یہ تھی کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے لیے سماعت کا دن دراصل سیاسی ملاقاتوں کا دن ہوتا ہے۔ شہباز شریف سے ملنے بہت سے پارٹی رہنما نو بجے پہنچ جاتے ہیں اور یہ سلسلہ چار پانچ گھنٹے جاری رہتا ہے جب تک کہ عدالت برخاست نہ ہو جائے۔ جس کا دل چاہے شہباز شریف اور حمزہ صاحب سے ملنے اور سیاسی موضوعات پر گفت و شنید کرنے وہاں پہنچ جاتا ہے۔ مریم اورنگزیب، عظمی بخاری، طاہرہ اورنگزیب، شائستہ پرویز ملک، خواجہ احمد حسان، سعد رفیق، رفیق رجوانہ، حنا پرویز بٹ اور دیگر کئی لوگ شہباز شریف کے قریب بیٹھ کر سرگوشیاں کرتے اور سیاسی گفت و شنید کا موقع حاصل کرتے ہیں۔ مریم نواز آجائیں تو محفل کو اور بھی چار چاند لگ جاتے ہیں، اس دن چہل پہل دیدنی ہوتی ہے۔
ایک اور چیز تسلسل سے ہو رہی ہے۔ شہباز شریف وہ باتیں جو جیل میں ہونے کی وجہ سے پریس کانفرنس کا انعقاد کر کے نہیں کہہ پاتے وہ کمرہ عدالت کا روسٹرم استعمال کر کے کہہ دیتے ہیں۔ پچھلی سماعت کے دوران جب شہباز شریف نے لاہور کے کچرے اورن لیگ کے دور میں اپنی کارکردگی کا ذکر کرنا چاہا تو کمرہ نمبر دو کے جج جواد الحسن نے کہا شہباز صاحب آپ میری عدالت کو پریس کانفرنس کا فورم بنا رہے ہیں اور میڈیا کی موجودگی کا فائدہ اٹھا کراپنی بات اخبارات تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ اس کے باوجود شہاز شریف نے پندرہ منٹ تک اپنی پوری بات کی۔ اگلی سماعت میں بھی انہوں نے ڈیلی میل کی پرانی کہانی اور سولڈ ویسٹ مینجمنٹ کے حوالے سے اپنے خیالات کا تفصیلی اظہار کیا۔
عدالت میں اکثر اوقات مسکراہٹوں کا تبادلہ رہتا ہے، کبھی جج صاحب یا وکلا کے ریمارکس سے قہقہے بھی لگتے ہیں مگر چند لوگ حسرت و یاس کی تصویر بنے خاموشی اور سنجیدگی سے کھڑے رہتے ہیں۔ یہ وہ ملزمان ہیں جو ہتھ کڑیاں لگا کر کمرہ عدالت میں لائے جاتے ہیں۔ ان کے نام قاسم قیوم، شعیب قمر، فضل داد عباسی، مسرور انوراور راشد کرامت ہیں۔ گڈ نیچر کمپنی کا سی ای او اور شہباز شریف کا مبینہ فرنٹ مین نثار گل بھی عدالت میں لایا جاتا ہے مگر وہ ہتھ کڑیوں میں نہیں ہوتا نہ ہی کمپنی کا سی ایف او محمد عثمان ہتھکڑیوں میں لایا جاتا ہے۔
مجھے اپنی کم علمی کے باعث نہیں معلوم کہ نثار گل اور محمد عثمان جیسے وہ ملزم جنہیں ہتھکڑیاں نہیں لگائی جاتیں، انہیں کیوں نہیں لگائی جاتیں اورقاسم قیوم، شعیب قمر وغیرہ جیسے وہ ملزم جنہیں ہتھکڑیاں لگتی ہیں انہیں کیوں لگتی ہے۔ کیا واقعی منی لانڈرنگ ہوئی ہے یا نہیں یہ تو عدالت نے فیصلہ کرنا ہے۔ ان سب میں بڑا مجرم کون ہے اور چھوٹا کون یہ بھی عدالت میں واضح ہونا ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اگر کوئی سب سے کمزور ملزم ہے تو وہ یہی کیش بوائز ہیں جو تھوڑی تھوڑی تنخواہوں پر ملازم تھے، جن کا موقف ہے کہ وہ اپنے تئیں ایس ای سی پی میں رجسٹرڈ کمپنیوں میں کام کر رہے تھے، وہ پیسے گنتے، بینکوں سے نکالتے اور بینکوں میں جمع کراتے تھے۔ اگر پیسہ غیر قانونی طریقے سے کمایا یا وہاں لایا جا رہا تھا تو بھی اس میں 20 ہزار روپے تنخواہ لینے والے ملازم کا کوئی قصور نہیں ہو سکتا تھااور جن کا سب سے کم قصور تھاصرف انہیں ہی ہتھکڑیاں ڈال کر کمرہ عدالت میں پانچ پانچ گھنٹے کے لیے کھڑاکر دیا جاتاہے باقی سب کو ہتھکڑیوں کی اس شرمندگی سے نہیں گزرنا پڑتا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ شہباز شریف نے اس کیس میں ابھی تک ضمانت کی درخواست ہی دائر نہیں کی ہے حالانکہ حمزہ شہباز اس سلسلے میں عدالت عظمیٰ سے رجوع کر چکے ہیں۔ اس بارے میں جب کمرہ عدالت میں عطا تارڑ سے میں نے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہماری سٹریٹیجی یہ ہے کہ پہلے حمزہ شہباز کی ضمانت کرائیں اور پھر شہباز شریف کی ضمانت کے لیے جائیں۔ لیکن سوال پھر بھی ہے کہ دونوں کی ضمانت کی درخواست ایک ساتھ کیوں نہیں؟
ابھی یہ کیس منی لانڈرنگ ثابت ہونے سے بہت دور ہے۔ 110گواہان کے بیانات اور پھر ان پر جرح ہونے میں نہ جانے کتنے سال لگ جائیں۔ شایددونوں کی ضمانتیں لینے کے بعد ن لیگ وقت اور حکومت بدلنے کا انتظار کرنا چاہے گی اور اس کے بعد جو ہو گا وہ سب کو پتہ ہے۔