ہمارے ہاں عید کے قریب آتے ہی تمام کام عید کے بعد تک کے لیے رک جاتے ہیں۔ پندرہ دن پہلے ہی یہ جملہ محاورہ بن جاتا ہے کہ "اب تو جی یہ عید کے بعد ہی ہو گا"۔ بعض اوقات تو یوں لگتا ہے کہ عید بہت سے کاموں میں رکاوٹ بن گئی ہے حالانکہ دیکھا جائے تو چھٹی صرف تین دن کی ہوتی ہے، کام بھی تین دن کے لیے رکنا چاہیے لیکن دو ہفتے پہلے سے لیکر ایک ہفتہ بعد تک تمام کام عملی طور پر معطل ہو جاتے ہیں۔ عید کے دس دن بعد بھی بہت سے لوگ عذر پیش کرتے نظر آتے ہیں کہ جی پوری لیبر ابھی واپس نہیں آئی۔ ہمارے ہاں سب سے لمبی عید بھی اُن مزدوروں کی ہوتی ہے جو دیہاتوں میں رہتے ہیں مگر شہروں میں کام کرتے ہیں۔ عید سے کئی دن پہلے گھر چلے جاتے ہیں اور واپس آنے کا نام نہیں لیتے۔ پندرہ بیس دن کے اسی وقفے کی وجہ سے بہت سے کام جمع ہو جاتے ہیں جو سب عید کے بعد ہونا ہوتے ہیں۔
شادی بیاہ کے حوالے سے بھی یہ رواج ہے کہ عید کے چوتھے دن تو شادی رکھ لی جاتی ہے لیکن عید سے چار دن، ایک ہفتہ یا دس دن پہلے شادی کا کوئی رواج نہیں۔ حالانکہ اگر عید سے دس دن پہلے شادی ہو گی تو عید کا مزہ دوبالا ہو سکتا ہے۔ نہ صرف شادی شدہ جوڑے کے لیے بلکہ دونوں خاندانوں کے لیے عید کا موقع زیادہ مسرت کا باعث بن سکتا ہے۔ لیکن آپ ہمیشہ یہی سنیں گے کہ جی عید کے بعد شادی ہے یا عید کے فورابعد شادی ہے بھئی عید سے پہلے کیوں نہیں؟
سیاست میں بھی اسی طرح ہوتا ہے۔ کوئی تحریک چلانی ہو، جلسے جلوس کرنا ہوں یا ریلیاں نکالنی ہوں، عموما عید کے بعد کا شیڈول جاری ہوتا ہے۔ عید سے ایک مہینہ پہلے بھی سیاسی رہنما یہی نعرہ لگاتے نظر آتے ہیں کہ عید کے بعد حکومت کے خلاف بڑی تحریک چلائی جائے گی۔ حالانکہ یہ تحریک عید سے پہلے شروع کر کے بھی تین دن کا وقفہ لیا جا سکتا ہے۔ ویسے بھی دو جلسوں کے بیچ ہفتے دس دن کا وقفہ ہوتا ہی ہے لیکن یوں لگتا ہے کہ عید سے پہلے شروع ہو کر عید کے بعد تک چلائی جانے والی تحریک جاندار نہیں ہو گی۔ اس لیے اکثریہی اعلان ہوتا ہے کہ عید کے بعد تحریک چلائی جائے گی۔
شادی بیاہ کی طرح اس مرتبہ کشمیر کے انتخابات بھی عید کے فورا بعد رکھے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس بار عید سے دو دن پہلے تک بھی گرما گرم جلسے جاری رہے ہیں۔ مجبورا عید سے پہلے تمام سیاسی جماعتوں نے اپنی مہم کوحتمی شکل دینی تھی۔ لہذا دو دن پہلے تک بھی کشمیر میں سیاست اپنے عروج پر رہی۔ امیدواران تو عید کے روز بھی اپنی مہم پر ہیں مگر بڑے جلسے اختتام کو پہنچے۔ یعنی بڑی انتخابی مہم اور انتخابات کے درمیان عید کا وقفہ ہے اور عید کے بعد الیکشن کا میلہ سجے گا۔ وہی جیت کے دعوے، وہی دھاندلی کے الزامات اور شوروغل، وہی پریس کانفرنسز اور ٹی وی ٹاک شوز میں الزامات کی وہی بوچھاڑ۔ دو دن میں عید وید سب بھول جائے گی۔
کشمیر الیکشن ختم ہونے کے بعد پی ڈی ایم کے جلسے شروع ہوں گے۔ کراچی میں پیپلز پارٹی کے بغیر پی ڈی ایم کا میدان سجے گا۔ پیپلز پارٹی کے گھرمیں پیپلز پارٹی کے بغیر پی ڈی ایم کی جماعتیں پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت پر تنقید کریں گی تو کھیل دلچسپ مرحلے میں داخل ہو جائے گا۔ ہمارے ٹاک شوز میں بھی رونق لگی رہے گی۔ ایک ہفتے کا مصالحہ ایک جلسے سے نکل آئے گا، چند دن اچھے گزر جائیں گے۔
عید کے وقفے کے بعد عدالتوں میں بھی گہما گہمی لوٹ آئے گی۔ راولپنڈی رنگ روڈ کے معاملے میں سابق کمشنر راولپنڈی کیپٹن(ر) محمود اور سابق کمشنر لینڈ ایکوزیشن وسیم تابش گرفتار کیے جا چکے ہیں دوسری مرتبہ ان کا جسمانی ریمانڈ دیا گیا ہے، 24 جولائی کو دوبارہ انہیں عدالت میں پیش کیا جانا ہے۔ تحقیقات آگے بڑھیں گی تو زلفی بخاری اور غلام سرور خان کے رنگ روڈ کرپشن میں مبینہ کردار کے حوالے سے بھی تفتیش ہو گی۔ عدالت میں دو بار کیپٹن محمود کے وکیل کی طرف سے وزیر اعلی کا نام بھی لیا گیا ہے۔ لہذا عید کے بعد راولپنڈی رنگ روڈ کے منصوبے میں مبینہ کرپشن کے معاملے کی تحقیقات دلچسپی کا باعث رہیں گی۔
اسی طرح نیب عدالتوں کی طرف بھی سب کی نظر ہے جہاں مارچ سے لیکر اب تک ججز نہ ہونے کی وجہ سے ٹرائل رکا ہوا ہے۔ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے منی لانڈرنگ کیس میں مارچ سے اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ مارچ میں احتساب عدالت کے تین ججز کو ٹرانسفر کر دیا گیا تھا، تب سے اب تک نئے ججز نہیں لگائے جا سکے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عید کے بعد کیا شہباز شریف، حمزہ اور خاندان کے دیگر لوگوں کا ٹرائل دوبارہ شروع ہوگا یا پھر عید کے بعد عید میلاد النبی اور پھر عید الفطر تک ججز کی عدم دستیابی عدالتی نظام پر سوال اٹھاتی رہے گی۔
اسی طرح اسلام آباد ہائیکورٹ میں مریم نواز کے کیسز کی سماعت بھی جاری ہے۔ عید کے بعد اس میں تیزی دیکھنے میں آئے گی۔ مریم نواز یا تو بری ہو جائینگی یا پھر دوبارہ سے جیل جائیں گی۔ یہ معاملہ اگلی عید تک نمٹ جائے تو غنیمت ہو گا۔
عید کے بعد افغانستان کے مسئلے پر بھی سب کی نظر رہے گی، افغان سفیر کی بیٹی کے مبینہ اغواء کو بہانہ بنا کر سفیر کا لوٹ جانا، افغان حکومت کے الزامات اور طالبان کے طاقت پکڑ جانے کے اثرات کو پاکستان میں باریک بینی سے دیکھا جا رہا ہے۔ دہشت گردی کے خطرات کے پیش نظر پاکستان میں اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں۔ عید کے بعد پاکستان کے لیے افغانستان ایک اہم ترین موضوع ہو گا۔
اب دیکھئے عید کے بعد کا منظر نامہ کیا ہوتاہے اور حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں۔