حیرت ہے، فواد چودھری صاحب کی سادگی پر، جو پاکستانی یونیورسٹیز کے ڈاکٹرز اور ریسرچرز سے کورونا کے علاج میں معاونت کرنے کی فرمائش کر رہے ہیں، ایک ٹویٹ کے ذریعے در اصل انہوں نے اپنے بارے میں آشکار کیا ہے کہ وہ یونیورسٹیز کو ریسرچ کے لیے ملنے والی گرانٹ کے طریقہ کار، اس کے حجم اور گلے سڑے بوسیدہ نظام سے بالکل نا واقف ہیں اور نہیں جانتے کہ کورونا پر ریسرچ کے لیے اگر پاکستانی سائنسدان اور طلبہ آج پروپوزل بھیجتے ہیں تو ریسرچ کے پاکستانی نظام میں رہتے ہوئے انہیں اپنا حصہ ڈالنے میں کم از کم تین سال کا عرصہ لگے گا۔ آپ نہیں جانتے فواد چودھری صاحب تو چلیے کچھ چیزیں آپ کے گوش گزار کر دیتے ہیں۔
حکومت کا ایک ادارہ ہے پی ایس ایف(پاکستان سائنس فائونڈیشن) جو وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ماتحت کام کرتا ہے۔ اگر کوئی سائنسدان، پروفیسر یا ریسرچر اس ادارے سے ریسرچ کے لیے گرانٹ حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کا طریقۂ کار یہ ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنی پروپوزل تیار کر کے پی ایس ایف کو جمع کرائے گا۔ سب سے پہلے وہ پروپوزل ریویور (Reviewer) کے پاس جائیگا۔ کئی مہینے تک لائن میں لگنے کے بعدجب اس پروپوزل کی باری آئے گی تو وہ متعلقہ کمیٹی کے سامنے پیش ہو گا، کمیٹی نے اگر مناسب سمجھا تو چند مہینے کی تاریخ دے کر پروپوزل بھیجنے والے کو پریزینٹیشن کے لیے بلا لے گا۔ اب یہاں سے متحرک ہوتا ہے وہی گلا سڑا کرپشن زدہ نظام جس نے کینسر کی طرح ہر جگہ پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ سفارش، ذاتی پسند و نا پسند، رشوت اورنہ جانے کیا کیا۔ گرانٹ کا حق دار ثابت کرنے کے لیے ایک سائنسدان یا ریسرچر کو نہ جانے کیسے کیسے پاپڑبیلنے پڑتے ہیں۔ بیرون ملک سالہا سال تک ریسرچ کرنے والے لاہور کے ایک ڈاکٹر کی پروپوزل پی ایس ایف میں بیٹھے ایک صاحب نے جو کبھی ان کے استاد بھی رہے تھے یہ کہہ کرمسترد کر دی کہ "توں ہن ایڈا ہو گیا ایں کہ ریسرچ کریں "۔ اپنی ریسرچ کے حق میں مزید دلائل دینے والے سائنسدان کو پھر یہ کہہ کر خاموش کر دیا گیا کہ "توں ہن مینوں سائنس سکھائیں گا"۔ اس ریسرچر کا پروپوزل مسترد ہونے میں ا ڈھائی سال لگے۔ آپ سوچیے اگر گرانٹ مل بھی جاتی تو پروپوزل بھیجنے کے ا ڈھائی سال بعد ملتی مگر وہ بھی نہ ملی۔ لہذا آپ آج کورونا پر ریسرچ کرنے کے لیے پروپوزل بھیجئے، قسمت نے یاوری کی، سفارش آپ کے پاس ہوئی، وہاں بیٹھے ہوئے بابوں کو اگرآپ کے اپنے سے آگے نکلنے کا خوف نہ ہوا اور انہوں نے منظوری دے بھی دی تو انشاء اللہ کورونا پہ ریسرچ کرنے کے لیے آپ کو 2023 میں گرانٹ مل جائیگی۔
اب ذرا ایچ ای سی کی کہانی سن لیجے۔ لاہور کے ایک سائنسدان سے میں واقف ہوں۔ انہوں نے اپنا ایک ریسرچ پروپوزل ایچ ای سی کو بھیج کر 65 لاکھ روپے کی گرانٹ مانگی۔ کئی مہینوں کے بعد کمیٹی نے انہیں پریزینٹیشن دینے کے لیے بلایا، کچھ مزید مہینے لگے اور انہیں ای میل موصول ہوئی کہ پروپوزل منظور کر لیا گیامگر 65 لاکھ کی بجائے ان کے لیے 24 لاکھ کی منظوری ہوئی ہے۔ انہوں نے اصرار کیا کہ اس پروجیکٹ کے لیے 24لاکھ ناکافی ہیں، جواب ملا لینا ہیں تو لو ورنہ کسی اور کو دے دیے جائیں گے۔ خیرانہوں نے ہامی بھر لی، ڈیڑھ سال بعد جب پیسے یونیورسٹی کے اکائونٹ میں آئے تو ڈالر کا ریٹ کہیں سے کہیں جا چکا تھا۔ پھر کیمیکل کی خریداری کا مرحلہ شروع ہوا، پیپرا رولز کے مطابق ٹینڈر ہوئے، کئی مہینے لگے تجربات کے لیے ضروری کیمیکلز اورسامان کے مہیا ہونے میں۔ بڑی مشکل سے بھاگ دوڑ کرکے انہوں نے اپنی ڈیڈ لائن پر پہلی رپورٹ جمع کرائی۔ دو مہینے بعد فالو اپ کیا تو متعلقہ محترمہ نے جواب دیا آپ کی میل کہیں گم ہو گئی ہے دوبارہ بھیج دیں۔ دوبارہ بھیجنے کے دو مہینے بعدفالو اپ کیا تو پتہ چلا کہ آپ سے پہلے تین سو رپورٹس اور بھی ہیں اس کے بعد آپ کی باری آئے گی۔ غرض یہ کہ جب ان کی باری آئی تو ان کے براجیکٹ کی دوسری ڈیڈ لائن سر پہ آ چکی تھی۔ ساڑھے تین سال ہو گئے یہ پراجیکٹ ابھی چل رہا ہے، ریسرچ ایچ ای سی کے کاغذوں میں گم ہے اور گرانٹ کی تیسری قسط آنا ابھی باقی ہے۔ قسمت نے یاوری کی تو شاید دو تین سال میں پروجیکٹ مکمل ہو جائے۔ ایسے میں فواد چودھری صاحب حیران ہیں کہ پاکستانی ریسرچرز نے ابھی تک کورونا پہ ریسرچ کر کے رزلٹس کیوں نہیں دے دیے۔ اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا!کچھ دیر پہلے فون پر میری آسٹریلیا میں رہنے والے ڈاکٹر عمر سے بات ہو رہی تھی جو کئی سال سے کینسر کی تشخیص کرنے والی ایک چھوٹی ڈیوائس پر کام کر رہے ہیں بالکل ایسے ہی جیسے شوگر کی تشخیص کرنے والی ایک چھوٹی سی ڈیوائس ہر گھر میں موجود ہوتی ہے۔ کورونا وائرس آنے کے بعد ڈاکٹر عمر نے اپنی اس ڈیوائس کو موڈیفائی کر کے اسے کورونا کی تشخیص کے لیے لیبارٹری میں ٹیسٹ کیا جس کے انہیں بڑے حوصلہ افزاء نتائج ملے لیکن پاکستانیوں کے لیے انہیں کمرشل بنیادوں پر تیار کرنے کی خاطر مزید ریسرچ اور حکومت کی معاونت درکار ہے۔ ڈاکٹر عمر مجھے بتا رہے تھے کہ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی کے سائنسدانوں سے ابتدائی میٹنگزمکمل کر لی ہیں اور وہ ایچ ای سی سے ایک کروڑ روپے کی گرانٹ مانگنے جا رہے ہیں جس کے ذریعے وہ کورونا کی تشخیص گھر پر کرنے والی ڈیوائس تیا ر کر لیں گے۔ میں ڈاکٹر عمر کی بات سن کر خوش بھی ہوا اور ان کے لیے افسردہ بھی، بہت عرصے سے وہ پاکستان سے باہر ہیں اور نہیں جانتے کہ آج ایچ ای سی کو پروپوزل بھیجیں گے تو تب گرانٹ آئے گی جب کورونا ختم ہو چکا ہوگا۔
فواد چودھر ی صاحب کے علم میں شاید یہ بھی ہو گا کہ ان کی حکومت نے 2019-20 کے لیے ایچ ای سی کا بجٹ 30 ارب سے کم کر کے 28 ارب روپے کر دیا ہے، جو دنیا بھر کی یونیورسٹیز کے مقابلے میں 0.001 فیصد بنتا ہے۔ پیسے نہیں ہیں تو کم از کم گرانٹ دینے کا گلا سڑا نظام ہی تبدیل کر دیجے فواد چودھری صاحب!کچھ نہ کچھ تو ہمارے ریسرچرز کر ہی لیں گے۔