محترمہ بے نظیر بھٹو کو میں نے پہلی بار 18اکتوبر 2007 کو جناح انٹرنیشنل ائیرپورٹ کے باہر دیکھاجب وہ لاکھوں کارکنوں کی جانب دیکھ کر ہاتھ ہلا رہی تھیں۔
مجھے صحافت میں آئے چند ہی ماہ ہوئے تھے۔ میں بہت چھوٹا تھا جب انہوں نے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر لی تھی۔ 2007 کے اوائل میں صحافت کے میدان میں قدم رکھا تو سب سے بڑا سیاسی سوال یہی تھا کہ محترمہ کب واپس آئیں گی۔ پارٹی لیڈرز ہمیں ٹاک شوز میں یہی بتاتے، محترمہ بہت جلد اپنے کارکنوں کے درمیان ہوں گی۔ ہم کہتے تاریخ دیں تو جواب ملتا محترمہ مناسب وقت پر واپسی کا فیصلہ کریں گی۔ دوسرا اہم سیاسی سوال یہ تھا کہ کیا محترمہ ڈیل کے تحت واپس آ رہی ہیں تو جواب میں ظاہر ہے تردید کر دی جاتی لیکن عام تاثر یہی تھا کہ محترمہ 2007 ہی میں فوجی حکومت سے ڈیل کر کے واپس آ رہی ہیں۔
17 اکتوبر کو میں لاہور سے کراچی پہنچا، رات گئے دفتر میں فیصلہ ہوا چونکہ صبح رکاوٹیں لگا کر ائیرپورٹ کے تمام راستے بند کر دیے جائیں لہذا اپنی ڈی ایس این جیز، کیمرے، ٹیمیں اور آلات رات ہی کو ائیرپورٹ کی حدود میں پہنچا دیے جائیں۔ مجھے کہا گیا کہ میں ابھی آرام کروں اورصبح آٹھ بجے ائیر پورٹ کے باہر اپنی ٹیم کو جوائن کر لوں۔ میں صحافت کے میدان میں نیا تھا، کام کرنے کا جنون تھا، تجربہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ میں نے ازخود فیصلہ کیا کہ میں بھی رات ہی کو اپنے دیگر ٹیم ممبرزکے ساتھ ائیر پورٹ پہنچ جائوں گا کہیں ایسا نہ ہو کہ صبح راستے بند ہوں اور میں ایک تاریخی ایونٹ کی کوریج کرنے سے رہ جائوں۔
رات شاید دو ڈھائی بجے ہم ائیر پورٹ پہنچ گئے، دوسرے میڈیا چینلز کی گاڑیاں بھی رات ہی کو اپنی اپنی پوزیشن لے چکی تھیں۔ رات جیسے تیسے گاڑی میں اونگھتے جاگتے گزاری اور صبح سویرے کیمرہ مائیک سیدھا کر کے کھڑا ہو گیا۔ مجھے یاد ہے کہ صبح ہی سے پیپلز پارٹی کے رہنما ائیرپورٹ آنا شروع ہو گئے تھے جن سے میں وقفے وقفے سے مختصر انٹرویو کر کے ڈی ایس این جی کے ذریعے لاہور آفس بھجواتا رہا۔ ان میں بابر اعوان، فرزانہ راجہ، عظمٰی بخاری، عابدہ حسین اور دیگر کئی شامل تھے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو اپنی دس سالہ جلا وطنی ختم کر کے واپس آ رہی تھیں۔ سندھ بھر سے قافلے جھنڈے اور بینرز اٹھائے چلے آتے تھے۔ کارکنوں کا جوش و ولولہ دیدنی تھا۔ اطلاع تھی کہ محترمہ دوپہر کے کسی وقت پاکستان میں اتریں گی۔ محترمہ کی جھلک دیکھنے کے لیے کارکنوں میں بے چینی بڑھ رہی تھی۔ ہم دن بھر کارکنوں اور پارٹی رہنمائوں سے گفتگو کرتے اور سارا ڈیٹا لاہور بھیجتے رہے۔ پھر سہ پہر کے بعد سبز رنگ کے جوڑے میں ملبوس محترمہ بے نظیر بھٹو کی جھلک کارکنوں اور میڈیا پرسنز کو دکھائی دی۔ ائیرپورٹ کی حدود میں پائوں رکھنے کی جگہ نہ تھی۔ میں اپنی ڈی ایس این جی کی چھت پہ کھڑا محترمہ کی آمد کو رپورٹ کر رہا تھا۔ بے نظیر بھٹو اس ٹرک پر سوار تھیں جو خصوصی طور پر ان کی آمد اور قافلے کی شکل میں اپنے مقام تک پہنچنے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔
یہ جانتے ہوئے کہ بے نظیر بھٹو کا آنے والے دنوں میں سیاسی کردار انتہائی اہم ہے، انٹرنیشنل میڈیا کے نمائندے بڑی تعداد میں اس ایونٹ کو کور کرنے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ میڈیا پرسنز کے لیے انتظامیہ نے الگ سے بسیں چلائی تھیں جو محترمہ کے کنٹینر سے تھوڑا فاصلے پر پیچھے پیچھے چل رہی تھیں۔ بے نظیر بھٹو کا قافلہ ائیر پورٹ کی حدود سے نکلنے کو تھا، میرے چینل کی انتظامیہ نے مجھے پیش کش کی کہ میں دوسری ٹیم کے ساتھ سیدھا اس مقام پر چلا جائوں جہاں محترمہ نے پہنچ کر خطاب کرنا ہے۔ میں نے فیصلہ کیا کہ اُس ٹیم کے ساتھ رہوں گا جو قافلے کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہوئے منزل پر پہنچنے والا تھا۔
ہم محترمہ کے ساتھ ہو لیے۔ لاہور آفس سے مسلسل فون آ رہے تھے، محترمہ کے کنٹینر پر سوار ہو کر ان کا ایکسکلیوثو سائونڈ بائٹ بھیجنے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔ اس سلسلے میں پہلے ہی سے میں نے جہانگیر بدر اور شیری رحمن سے درخواست کر رکھی تھی اور انہوں نے ہامی بھر رکھی تھی کہ وہ اس سلسلے میں معاونت فراہم کریں گے مگر ایسا نہ ہوسکا۔ سکیورٹی خطرات کے پیش نظیر کارکنوں نے بی بی کے ٹرک کو گھیر رکھا تھا۔ وہ سب دائر ہ بنا کر ٹرک کے ساتھ ساتھ چلتے تھے۔ میں بھی ٹرک کے اس حصے کی جانب مسلسل ساتھ ساتھ چلتا رہا جہاں سے سیڑھیاں اوپر کی جانب جاتی تھیں۔ کبھی جہانگیر بدر کو پیغام بھیجتا اور کبھی خود سکیورٹی کی منتیں کرتا۔ میں صحافت میں نیا تھا، اس طرح کے کام کیسے نمٹانے ہیں یہ تجربہ تو نہیں تھا، لیکن کام کا جذبہ ہونے کی وجہ سے گھنٹوں ٹرک پر سوار ہونے کی کوشش کرتا رہا۔
رات گیارہ بجے کے قریب مجھے خیال آیا کہ ابھی رش بہت زیادہ ہے، کچھ دیر کے وقفے کے بعد پھر کوشش کرنی چاہیے یہی سوچ کر میں پیچھے پیچھے چلنے والی میڈیا بس میں آ کر بیٹھ گیا، پچھلی رات کا جاگا ہوا تھا، نیند اور تھکاوٹ مجھ پر غلبہ پانے کو تیار تھے کہ ایک دھماکے کی آواز آئی۔ انٹرنیشنل میڈیا کے نمائندوں کے چہروں پر خوف کے آثار نمودار ہوئے، میں اور چند دیگر مقامی صحافی بس سے باہر آئے۔ اس وقت ہم قطعیت کے ساتھ نہیں کہہ سکتے تھے کہ یہ بم کا دھماکہ تھا، جتنی دیر ہمیں سمجھنے میں لگی اتنی دیر میں ایک اور زوردار دھماکے کی آواز آئی اور آگ کے شعلے فضا میں بلند ہوئے۔ میں نے افرا تفری کے عالم میں لوگوں کو بے ہنگم طریقے سے ادھر ادھر بھاگتے ہوئے دیکھا۔
ظاہر ہے سب سے پہلا سوال جو ہمارے ذہن میں آیا وہ یہی تھا کہ کیا محترمہ خیریت سے ہیں۔ کچھ ہی دیر میں ہمیں یہ تو خبر مل گئی کہ محترمہ خیریت سے ہیں اور انہیں آن کی آن میں یہاں سے محفوظ مقام کی جانب لے جایا گیا ہے۔ لیکن اب ہمارے سامنے لاشوں اور زخمیوں کے ڈھیر لگے تھے جنہیں اسپتال منتقل کرنے میں ایک گھنٹے کا وقت لگا۔ رات بھر ہم پہلے کارساز کے اس مقام اور بعد میں اسپتال سے رپورٹ کرتے رہے۔ یہ میری صحافتی زندگی کا پہلا بڑا ایونٹ تھا اور اب تک کا سب سے زیادہ خوفناک۔ اگلے دن میں نے بے نظیر بھٹو کو دوسری بار دیکھا۔ (جاری ہے)