Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. High Profile Cases Aur Police Tafteesh

High Profile Cases Aur Police Tafteesh

عدنان ملک کو اسلام آباد بلا کر تحسین کی گئی، بلا شبہ وہ تحسین ہی کے لائق تھامگر سوال یہ ہے کہ پولیس کو کب پتہ چلاوہ ہیرو ہے۔ واقعے کے بعدعدنان کو گرفتار کیا گیا تواس کی جانب سے بار بار کی وضاحت کے باوجود پولیس کو یقین نہ آیا۔ مزدوروں کو اشتعال دلانے والے صبور بٹ کو پہلا مرکزی ملزم ٹھہرانے کے بعد عدنان ملک کو اس کیس میں دوسرے اہم ترین ملزم کے طور پر حراست میں رکھا گیا۔ پھر اچانک میڈیا کے ہاتھ چند ایسی ویڈیوز لگیں جس میں دو اشخاص پریانتھا کو ہجوم سے بچانے کی کوشش کر رہے تھے، دن بھر ہیڈ لائنز چلیں تو حکومت نے عدنان کو ہیرو قرار دے دیا، پولیس کے پاس یہ تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ عدنان ہیرو ہے گویا اب تک وہ ہائی پروفائل کیس کے دبائو میں غلط شخص کو مجرم قرار دینے پر تُلے تھے۔ دو ہی باتیں ہو سکتی ہیں یا تو پولیس کی تفتیش اتنی کمزور تھی کہ اسے ہیرو اور مجرم کا فرق پتہ نہ چل سکا، یا پھر پولیس جان تو گئی تھی عدنان مجرم نہیں ہے لیکن ہائی پروفائل کیس کے دبائو میں اسے چھوڑنے اور معصوم قرار دینے کی ہمت کسی میں نہ تھی۔

کچھ عرصہ پہلے مینار پاکستان واقعے میں بھی یہی ہوا تھا۔ ٹک ٹاکرعائشہ اکرم کے سا تھ بد تمیزی کی گئی تومیڈیا پرآتے ہی یہ کیس ہائی پروفائل کیس بن گیا۔ کہیں میڈیا پر چار سو لوگوں کے ملوث ہونے کا ذکر ہوا تو پولیس چار سو کی گنتی پوری کرنے میں لگ گئی اور کئی معصوموں کو اٹھا کرحوالات میں ڈال دیا۔ پھر عائشہ اکرم سے شناخت پریڈ کرائی گئی، چھ افراد شناخت ہوئے تو ان اصل مجرموں کو چھوڑ دیا گیا جن پر عائشہ نے ابتدامیں انگلی نہ اٹھائی تھی۔ پھر کئی ہفتے بعد جب عائشہ نے ریمبو کو اپنا مجرم قرار دیا تو پتہ چلا اب تک پولیس کی اپنی تفتیش تیل لینے گئی ہوئی تھی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ایک تو پولیس صرف ہائی پرو فائل کیسز میں متحرک دکھائی دیتی ہے دوسرا انہی کو مجرم گردانتی ہے جن کے بارے میں میڈیا مجرم ہونے کا تاثر دیتا ہے۔ اصل حقائق تک پہنچنے کی جرأت کرتا کوئی دکھائی نہیں دیتا۔

یہ پولیس کا کیسا نظام ہے کہ جب تک کوئی کیس ہائی پروفائل کیسز میں شامل نہیں ہوتا سب سوئے رہتے ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا قصور کی ایک بچی زینب تھی۔ سزائے موت پانے والے اس کے مجرم نے اس سے پہلے گیارہ بچیوں کا ریپ کر کے قتل کر دیا لیکن کسی کے کان پر جوں نہ رینگی۔ پولیس کے کسی افسر یا ذمہ دار کو ہوش نہ آیا کہ مجرم کو پکڑا جائے۔ پھر زینب کی لاش کچرے کے ڈھیر سے ملنے کی تصویر میڈیا کے ہاتھ لگی۔ تصویر نشر ہوئی تو اس نے عوام کے ضمیر کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ کیس کا پروفائل ہائی ہوا تو پولیس کے سوئے ضمیر کو بھی مجبورا جاگنا پڑا اور دن رات کی محنت کے بعد مجرم کو ڈھونڈ نکالا گیا۔ کسی نے نہ پوچھا کہ ہائی پروفائل کیس بننے سے پہلے پولیس کہاں سو رہی تھی۔ اگر پہلی بچی کے قتل کے بعد پولیس جاگ جاتی تو باقی گیارہ کی زندگی بچ سکتی تھی۔

ابھی تازہ ترین واقعہ فیصل آباد کی سرگودھا روڈ پر پیش آیا ہے۔ ایک ٹی وی چینل نے تفتیش سے پہلے ہی دن بھر خبر چلائی کہ خواتین کو بے لباس ہونے پر مجبور کیا گیا۔ ابھی تک کوئی نہیں جانتا کہ آیا وہ چور تھیں اور انہوں نے از خود اپنے کپڑے پھاڑے یا نہیں، لیکن ٹی وی پر خبر چلنے کی وجہ سے کیس ہائی پروفائل ہو گیا اور پولیس نے دبائو میں یکطرفہ کارروائی کرتے ہوئے کئی افراد کو حراست میں لے لیا۔ خواتین میڈیا پر آ کر سر عام یکطرفہ موقف قائم کرنے میں لگی ہیں۔ اب پولیس اگر اپنی تفتیش میں اس نتیجے پر بھی پہنچتی ہے کہ خواتین نے خود ڈرامہ تخلیق کیا اور وہ پیشہ ور ہیں، پھر بھی خدشہ ہے کہ پولیس جوابدہی کے خوف سے ملزموں کو چھوڑنے سے گریز کرے گی۔ یعنی کوئی بھی سچ کا وزن اٹھانے کے لیے تیار نظر نہیں آتا۔

سیالکوٹ کے ملک عدنان کی تحسین کی گئی، مگر کیا کسی سے باز پرس بھی ہوئی۔ ڈی ایس پی لیول کے دو پولیس افسران اُس وقت موقع پر کھڑے تھے جب پریانتھا کی لاش جلائی جا رہی تھی۔ کیا کسی نے ان افسران سے پوچھا وہ کیوں خاموش کھڑے رہے اور ہجوم کو منتشر کرنے کی زحمت کیوں گوارا نہیں کی؟

سندھ پولیس کا اے ایس آئی محمد بخش آپ کو یاد ہو گا جس نے کشمور کا گینگ پکڑنے کے لیے اپنی بیٹی کی زندگی خطرے میں ڈالی اور تحسین پائی۔ داد وتحسین میں مگن حکمرانوں کو یہ پوچھنے کا خیال ہی نہ آیا کہ داد رسی کے لیے آنے والی بے بس خاتون کو کشمور پولیس نے ابتدائی طور پر دھتکار کیوں دیا گیا تھا، ایسا کیوں ہوا کہ وہ خاتون مایوس اور بے بس ہو کر روتی دھوتی اے آئی ایس آئی محمد بخش کے گھر پہنچ گئی اور پولیس اہلکار کی بیوی سے فریاد کرنے لگی، تب کہیں جا کر فریادی عورت پر ترس کھایا گیا اور اس کی داد رسی ہوئی۔ کسی نے نہیں پوچھا کہ اس خاتون کو میرٹ پر انصاف کیوں نہیں ملا تھا اور اگر محمد بخش نے واقعی اچھا کام کیا تھا تو ڈیپارٹمنٹ اور حکومت نے میڈیا پر خبر چلنے سے پہلے کیوں انعام و اکرام سے نہ نوازا، کیا اس سلسلے میں حکومت اورڈیپارٹمنٹ کا اپنا کوئی نظام نہیں ہے۔

ان تمام مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ پولیس میڈیا کے بل پہ چل رہی ہے۔ میڈیا پہ خبر آئے تو کیس ہائی پروفائل کیس بنتا ہے، کیس ہائی پروفائل ہو تو پولیس حرکت میں آتی ہے اور پولیس کے حرکت میں آنے کے بعد بھی یہ یقینی نہیں ہے کہ انصاف پولیس کی آزاد تفتیش کے مطابق ہو گا یا میڈیا کی فراہم کردہ گائیڈ لائنز کے مطابق۔

کوئی حکومت کو یاد دلائے کہ اس نے پولیس کو بدلنے کا وعدہ کر کے ووٹ حاصل کیے تھے۔ کہاں گئیں پولیس ریفارمز؟