صاف نظر آتا ہے کہ حکومت پنجاب نواز شریف کو واپس لانے میں سنجیدہ نہیں، نہ صرف یہ کہ سنجیدہ نہیں بلکہ اپنے اقدامات سے اس بات کو یقینی بنا رہی ہے کہ وہ واپس نہ آئیں۔ کیا یہی حکومت کے مفاد میں ہے؟ کیا یہی حکمت عملی ہے؟ کیا یہی ہے وہ جسے ڈیل نہیں ارینجمنٹ کہتے ہیں؟
اسلام آباد ہائیکورٹ نے نواز شریف کو آٹھ ہفتوں کی ضمانت دی اور حکم دیا کہ ضمانت میں توسیع درکار ہو تو حکومت پنجاب سے رجوع کیا جائے۔ طریقہ کار یہ طے پایا کہ نواز شریف اپنی میڈیکل رپورٹس حکومت پنجاب کو بھیجیں گے جسے تشکیل کردہ کمیٹی دیکھے گی اور نواز شریف کے لندن میں مزید قیام کرنے یا نہ کرنے کی منظوری دے گی۔ اس سلسلے میں حکومت پنجاب کی جانب سے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں صوبائی وزیر قانون، چیف سیکرٹری پنجاب، ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ اور سیکرٹری قانون کو شامل کیا گیا ہے۔
نواز شریف نے بیرون ملک قیام کے چار ہفتے مکمل ہونے پر پہلی رپورٹ 23 دسمبر کو حکومت پنجاب کو بھجوائی جسے نامکمل قرار دے کر کوئی بھی فیصلہ نہ دیا گیا۔ نواز شریف کی طرف سے اب تک کی آخری رپورٹ چھ فروری کو حکومت پنجاب کو بھجوائی گئی ہے جس پر حکومتی کمیٹی کی رائے یہ ہے کہ یہ رپورٹ نہیں بلکہ ایک خط ہے جس کے ساتھ میڈیکل رپورٹس نہیں بھجوائی گئیں جس کے باعث نواز شریف کی صحت کے بارے میں کوئی بھی اندازہ لگانا ممکن نہیں ہے۔
اس خط کی روشنی میں نہ تو نواز شریف کے دل کی صحت کا اندازہ ہوتا ہے نہ شریانوں میں خون کی روانی کا اور نہ ہی پلیٹ لیٹس کے اتار چڑھائو کا۔ ان ریمارکس کے ساتھ کمیٹی نے ایک مرتبہ پھر نواز شریف کے بیرون ملک قیام میں توسیع کی اجازت دینے یا نہ دینے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا۔
قانونی ماہرین کی رائے یہ ہے کہ حکومت پنجاب کے پاس قانونی طور پر دو راستے ہیں۔ ایک، یا تو وہ نواز شریف کی بھجوائی گئی میڈیکل رپورٹ سے قائل ہو کر انہیں بیرون ملک مزید قیام کی اجازت دے دیں۔ دو، نواز شریف کی میڈیکل رپورٹ کے نتیجے میں اختیار کیے گئے ان کے موقف پر عدم اطمینان کا اظہار کر کے بیرون ملک مزید قیام کی درخواست رد کر دیں۔ حکومت نے تیسرا ازخود ساختہ راستہ اختیار کر رکھا ہے، رپورٹ مستردکر دیتے ہیں فیصلہ نہیں سناتے۔ بیرون ملک قیام کی درخواست قبول کرتے ہیں نہ ہی رد۔
نواز شریف کی درخواست رد ہونے کی صورت میں ہو گا کیا؟ اگر پنجاب حکومت دستیاب میڈیکل رپورٹس کی روشنی میں نواز شریف کی بیرون ملک قیام میں توسیع کی درخواست رد کر دیتی ہے تو پھر اسلام آباد ہائیکورٹ کا انیس نومبر کا مشروط فیصلہ حرکت میں آئے گا، نواز شریف کے نا قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوں گے اور پیش نہ ہونے کی صورت میں انہیں اشتہاری قرار دے دیا جائے گا۔
اشتہاری قرار دیے جانے سے وہ حسن، حسین اور اسحاق ڈار کی فہرست میں شامل ہو جائیں گے جبکہ شہباز شریف کے لیے واپس آنا اور سیاست کرنا مزید مشکل ہو جائے گا اور بطور ضامن وہ اخلاقی دبائو میں ہوں گے جس سے ان کی سیاست پر واضح منفی اثر پڑے گا۔ حکومت پنجاب یہ سب جانتی ہے لیکن نواز شریف کی بیرون ملک قیام میں توسیع کو دبا کر بیٹھی ہے، نہ توسیع دے رہی ہے نہ درخواست مسترد کر رہی ہے۔ اس حکمت عملی کے پیچھے ممکنہ طور پر مندرجہ ذیل چار وجوہات ہو سکتی ہیں :
-1 حکومت پنجاب چاہتی ہے کہ نواز شریف واپس نہ آئیں کیونکہ واپسی کی صورت میں انہیں جیل میں ڈالنا ہو گا، بیمار نواز شریف پر علاج کا دبائو حکومت کے لیے جانے سے پہلے بھی درد سر بنا ہوا تھا۔
-2 حکومت سمجھتی ہے کہ نواز شریف کو واپس لانے کے لیے دبائو ڈالا گیا تو شہباز شریف بھی واپس آئیں گے یوں بکھری ہوئی اپوزیشن کے دوبارہ متحرک ہونے کا خدشہ ہو سکتاہے۔
-3 نواز شریف کی درخواست منظور نہ کرنے اور معاملے کو لٹکائے رکھنے کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ حکومت واقعی سمجھتی ہے کہ نواز شریف کی طبیعت خراب ہے اور انہیں باہر رہ کر علاج کرانا چاہیے لیکن اجازت دے کر وہ ان پر واپس آنے کا دبائو ختم نہیں کرنا چاہتی اور نہ ہی انہیں سیاسی فائدہ پہنچانا چاہتی ہے۔
-4 یا پھر یہ کہ جو کچھ ہو رہا ہے یہ ایک ارینجمنٹ کے تحت ہو رہا ہے۔ معاملے کو لٹکانا، جواب نہ دینا، درخواست کو منظور کرنا اور نہ ہی مسترد کرنا شاید کسی انڈرسٹینڈنگ کے تحت ہے۔
ایک رائے تو یہ ہے کہ معاملے کو لٹکا کے حکومت پنجاب توہین عدالت کی مرتکب ہو رہی ہے۔ عدالت کا حکم تھا کہ نواز شریف کی بیرون ملک قیام میں توسیع کا فیصلہ پنجاب حکومت کرے گی لیکن پنجاب حکومت فیصلہ نہیں کر رہی، یوں یہ عدالت کے فیصلے کی حکم عدولی ہے۔ کچھ قانونی ماہرین کو فیصلہ نہ سنانے کا یہ حکومتی عذر قابل قبول نہیں لگتا کہ میڈیکل رپورٹس کے نامکمل ہونے کے باعث فیصلہ نہیں سنایا جا رہا۔
قانونی رائے یہ ہے کہ فیصلہ دستیاب ستاویزات کی بنیاد پر ہی سنایا جانا ہے۔ اگر نواز شریف نے مکمل میڈیکل رپورٹ نہیں بھیجی تو حکومت انہی کی روشنی میں نواز شریف کی درخواست مسترد کر سکتی ہے لیکن وہ ایسا نہیں کر رہی۔ صاف نظر آتا ہے کہ حکومت پنجاب نواز شریف کو واپس لانا نہیں چاہتی۔ کیا یہی حکومت کے مفاد میں ہے؟ کیا یہی حکمت عملی ہے؟ کیا یہی ہے وہ جسے ڈیل نہیں ارینجمنٹ کہتے ہیں؟