Thursday, 26 December 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Kashmir Election Aur Noon League Ka Bayaniya

Kashmir Election Aur Noon League Ka Bayaniya

مریم نواز کی قیادت میں مسلم لیگ ن نے کشمیر کی انتخابی مہم میں جو بیانیہ اختیار کیا ہے اس کے تین اہم جزو ہیں۔ ایک، عمران خان کشمیر فروش ہیں۔ دو، آزاد کشمیر کا تشخص خطرے میں ہے۔ تین، مریم نواز اور نواز شریف کشمیری ہیں اس لیے وہ کشمیریوں کے ووٹ کے عمران خان سے زیادہ حقدار ہیں۔ ان تینوں نعروں کا عوام میں مقبولیت پانا نہایت مشکل یا تقریبا ناممکن ہے۔ ظاہر ہے اس کی کچھ وجوہات ہیں۔

راجہ فاروق حیدر، مشتاق منہاس، مریم نواز اور ن لیگ کے دیگر رہنما کشمیر کے طول و عرض میں نعرہ لگا رہے ہیں کہ یہ گلی، نالی، گٹر اور سڑکوں کا الیکشن نہیں یہ کشمیر کا تشخص قائم رکھنے کی جدوجہد کا الیکشن ہے۔ ہر جلسے، ہر کارنر میٹنگ اور ہر ریلی میں یہی نعرہ لگ رہا ہے کہ عمران خان آزاد کشمیر کوصوبہ بنانا چاہتا ہے اور یہ کہ بچہ بچہ کٹ مرے گا، کشمیر صوبہ نہیں بنے گا۔ لیکن جب میڈیا کے لوگ اپنا مائیک لے کر عوام کے پاس جائیں تو میر پور سے لیکر شاردہ تک لوگوں کی زبان پر ایک ہی شکوہ نظر آتا ہے، ہمارا کام نہیں ہوا، ہماری سڑک ٹوٹی ہوئی ہے، ہمارے ہاں بیروز گاری بہت ہے اور کرپشن نے ہمارا بیٹرہ غرق کر دیاہے۔ لوگ کہتے ہیں ہمیں اپنے مریض علاج کے لیے راولپنڈی لے جانے پڑتے ہیں، صحت کی مناسب سہولتیں نہیں۔ عوام کے ان شکووں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ن لیگ کا کشمیر کے تشخص کا نعرہ ابھی تک عوام میں مقبولیت نہیں پا سکا۔ مریم نواز کی پوری کیمپین اٹھا کر دیکھ لیں انہوں نے کہیں اپنے ترقیاتی کاموں کا ذکر نہیں کیا، لوگوں کو ان کا تشخص چھن جانے کا خوف دلا کر ووٹ مانگالیکن یہ عوام کا موضوع نہیں بن سکا۔

دوسرا، ن لیگ کی طرف سے عمران خان پر یہ الزام لگایا جا رہاہے کہ بھارتی آئین میں تبدیلی اور مقبوضہ کشمیر کا اسٹیٹس تبدیل ہونے کے وہی ذمہ دار ہیں، یہی نہیں بلکہ عمران خان نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے ساز باز کر رکھی ہے ا ور یہ بھی کہ عمران خان نے ٹرمپ کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں کشمیر کو ذاتی فوائد کے عوض بھارت کے ہاتھ بیچ دیا۔ آزاد کشمیر الیکشن میں جا کر حالات کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ عوام اس موقف سے قائل نظر نہیں آتے۔ اول تو کشمیر الیکشن میں یہ عوام کا موضوع ہی نہیں، اگر کہیں کہیں اس موضوع پر بات ہوتی بھی ہے تو لوگ سمجھتے ہیں کہ عمران خان نے کشمیر کا مقدمہ موثر انداز میں دنیا کے سامنے رکھا اور ہر فورم پر جاندار انداز میں آواز اٹھائی۔ لہذا ن لیگ کا دوسرا بیانیہ بھی زیادہ مقبول نہیں ہوا۔

تیسرا، مریم نواز ایک حکمت عملی کے تحت ہر جلسے میں یہ نعرہ تواتر سے لگا رہی ہیں کہ میں کشمیری ہوں، میرے والد کشمیری ہیں، میری والدہ، دادی، نانی سب کشمیری ہیں۔ مریم نواز یہ ثابت کرنے کے لیے اس حد تک چلی گئیں کہ اپنے اکائونٹ سے ایک فوٹو شاپڈ تصویر ٹویٹ کر دی جس میں نواز شریف ماضی میں دریائے نیلم کے کنارے اسی مقام پر کھڑے نظر آتے ہیں جہاں آج مریم کھڑی ہیں۔ انہوں نے لکھا "کشمیر سے رشتہ بہت پرانا ہے "۔ اس تصویر پر اس قدر تنقید ہوئی اور اتنے لطیفے بنے کہ ساری کیمپین کا اثر زائل ہو کے رہ گیا۔ ویسے بھی مریم کا کشمیری ہونے کا نعرہ زیادہ مقبولیت پا بھی نہیں سکا تھا، وہ یوں کہ آزادکشمیرکے کئی حلقوں میں لوگوں کا اعتراض یہ کہ امیدوار کا گھر اس حلقے میں نہیں ہے جہاں سے وہ الیکشن لڑ رہا ہے لہذا ہم اسے ووٹ نہیں دیں گے حالانکہ وہ نسلی اعتبار سے جدی پشتی کشمیری ہے لیکن لوگ اپنے حلقے میں رہائش پذیر نہ ہونے والے امیدوار کو ووٹ نہیں دینا چاہتے تو خود سوچیے کہ ایسا کشمیری جو پچھلے چار نسلوں سے کشمیر کا رہائشی نہ ہو اوراب اگلی نسل سمیت کشمیر تو کیاپاکستان بھی چھوڑ کر برطانیہ میں جا بسا ہوا اس کے ابائو اجداد کا کشمیری ہونا کیا معانی رکھے گا؟

لہذا میری رائے میں ن لیگ نے اپنا بیانیہ غیر دانشمندی کے ساتھ ترتیب دیا ہے۔ اس کی بجائے اگر پاکستان میں اپنے ترقیاتی کاموں کی فہرست مرتب کی جاتی، کشمیر میں جو تھوڑے بہت کام ن لیگ کی طرف سے کرائے گئے ہوں گے ان کی ایک فہرست بنائی جاتی اور مستقبل کے منصوبوں کو منشور کی شکل دے کر عوام کے سامنے رکھا جاتا تو شاید عوامی ردعمل نسبتا بہتر ہوتا۔ کشمیر میں تحریک انصاف کی حکومت سے مہنگائی کا شکوہ عوام میں کافی حد تک دکھائی دیتا ہے۔ لوگ یہ ضرور کہتے ہیں کہ اگر تحریک انصاف کو ووٹ دیا تو پاکستان جیسی مہنگائی یہاں بھی ہو جائے گی۔ بہتر ہوتا کہ ن لیگ عوام کے جذبات کی ترجمانی اسی انداز میں کر کے مہنگائی ہی کے مسئلے کو اپنا انتخابی نعرہ بناتی تو مقبولیت کے امکانات نسبتا زیادہ ہوتے۔

کمزور بیانیے کے ساتھ تحریک چلانے کی یہی غلطی پی ڈی ایم یہاں بھی کر رہی ہے۔ عمران خان کے خلاف مولانا فضل الرحمن سوات کے جلسے میں بھی یہودی ایجنٹ کا نعرہ بیچنے کی کوشش کر رہے تھے، مولانا کو سمجھنا چاہیے کہ اگر یہ نعرہ بکنا ہوتا تو پچھلے الیکشن میں نہ بک گیا ہوتا؟ اگر تب ان کا یہ نعرہ عوام میں مقبولیت نہ پا سکا تو آج عمران خان کو لوگ کیسے یہودی اور امریکی ایجنٹ مان لیں گے؟ شہباز شریف بھی یہی غلطی کر رہے ہیں۔ حکومت کے کمزور پہلووں پر گفتگو کرنے کی بجائے عمران خان کو کرپٹ ثابت کرنے میں لگے ہیں اور بتا رہے ہیں کہ عمران خان نے تین سال میں تاریخی کرپشن کی ہے۔ شہباز شریف کو سمجھنا چاہیے کہ عمران خلاف کے خلاف نا اہلی، بیڈ گورننس اور مہنگائی کا بیانیہ تو چل سکتا ہے، ا ن کے خلاف کرپشن کا بیانیہ نہیں چل پائے گا، سب جانتے ہیں کہ وہ غلط اور کمزور سیاسی فیصلے تو کر سکتے ہیں کرپٹ نہیں ہو سکتے۔

پیپلز پارٹی کے امیدواروں کی حکمت عملی ن لیگ سے کافی بہتر ہے۔ وہ حلقے کے مسائل کی مناسبت سے کیمپین کر رہے ہیں اور اپنی ماضی کی خدمت یاد دلا کر ووٹ مانگ رہے ہیں۔ پی ٹی آئی آزادکشمیر میں ٹکٹوں کی تقسیم کی معاملے میں اسی طرح کنفیوژن کا شکار نظر آئی جیسے پاکستان کی انتخابات میں تھی۔ کئی جگہوں پر ٹکٹ کی تقسیم کے فیصلے پر سوال بھی اٹھ رہے ہیں۔ کچھ جگہوں پر خدشہ ہے کہ اس کا نقصان بھی ہو گا۔ پی ٹی آئی کی انتخابی حکمت عملی پر تفصیلی گفتگو اگلے کالم میں۔