اصل بات یہ ہے کہ حکومت کے پاس کرونا سے نمٹنے کے لیے کوئی طبی حکمت عملی ہے ہی نہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب ہوٹلوں، شادیوں، مذہبی اجتماعات اور شاپنگ سینٹرز پر پابندی لگا دی گئی ہے، پبلک پارکس اور ٹرانسپورٹ بند کر دی گئی ہے، مساجد میں نماز جمعہ کے اجتماعات تک کو محدود کرنے پر غور ہو رہا ہے، ملک بھر میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے، چار سے زیادہ لوگ ایک جگہ پر اکٹھے نہیں ہو سکتے وہاں صرف ایک جگہ ایسی ہے جہاں ہزاروں لوگ بیک وقت جمع بھی ہو سکتے ہیں، ایک دوسرے کے منہ پر کھانس بھی سکتے ہیں، وائرس پھیلا بھی سکتے ہیں اور کسی دوسرے سے لے کر گھر بھی جا سکتے ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں ملک کے باقی حصوں کی نسبت کرونا کے مریض کے موجود ہونے کے امکانات سب سے زیادہ ہیں لیکن پھر بھی حکومت نے انہیں ہزاروں کے تعداد میں جمع ہونے کی اجازت دے رکھی ہے اور یہ جگہ ہے اسپتال کی اوپی ڈی۔
ڈاکٹرز ٹھیک ہی تو کہہ رہے ہیں۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ ہسپتالوں کی او پی ڈیز میں کرونا کا کوئی مریض کھانستا اور چھینکتا ہوا پھر نہ رہا ہواور کسی گھٹنے کے درد کا علاج یا کان صاف کرانے کے لیے آنے والے شخص کو وائرس دے کر نہ چلا جائے۔ ایسے میں کیا یہ حکمت عملی بہتر نہ ہو گی کہ ہسپتالوں کو صرف ایمرجنسی سروسز تک محدود کر دیا جائے اور پٹھوں میں کھچائو، گھٹنوں میں درد اور سکن الرجی کے مریضوں سے کہاجائے کہ فی الحال وہی دوا کھا کے گزارا کریں جو وہ پہلے سے لے رہے ہیں۔ ہسپتالوں کی او پی ڈیز میں آج بھی جا بجا ایسی عورتیں آپ کو نظر آئیں گی جو معمولی مرض کا علاج کرانے ہسپتالوں میں آتیں اور اپنے دو صحت مند بچوں کو محض اس لیے ساتھ لے آتی ہیں کہ اکیلے ہونے کے باعث گھر میں انہیں کسی کے پاس چھوڑکے آنا ممکن نہیں تھا۔ یوں آپ سوچئے ہمارے ہسپتال کتنے بڑے پیمانے پر کرونا وائرس پھیلانے کا سبب بن رہے ہیں۔
اب آپ ڈاکٹرز کو لیجے، ان تمام مریضوں کا معائنہ کرنا ان کی مجبوری ہے جو جب تک دوسروں کے منہ پر نہ کھانس لیں ان سے اپنی بیماری ایکسپلین نہیں ہوتی۔ ایسے میں ایک کرونا کا مریض اگر ایک ڈاکٹر کو انفیکٹ کر کے چلا گیا، تو اس کے بعد ان سینکڑوں مریضوں کے کرونا کی زد میں آنے کے امکانات پیدا ہو جائیں گے جن کا معائنہ اس ڈاکٹر نے کرنا ہے۔ گویا ہسپتالوں کی او پی ڈیز کرونا کے پھیلائو کا سب سے بڑا سبب بن سکتی ہیں۔ خاص طور پر ایسے حالات میں جب نزلے کھانسی کا ہر مریض کرونا کا ٹیسٹ کرانے ہسپتالوں میں پہنچ رہا ہو اور دوسرے مریضوں کے بیچ کھلے عام پھر رہا ہو۔ ٹیسٹ ہونے کے بعد اسے آئسولیشن میں رکھ بھی دیا جائے تو فائدہ نہیں کیونکہ وہ پھیلائو کا باعث تو پہلے ہی بن چکا ہوتاہے۔
اب آئسولیشن کی بھی سن لیجیے۔ آئسولیشن کا مطلب ہوتا ہے الگ تھلگ ہونا۔ یہ کیسے آئسولیشن سینٹرز ہیں جوہسپتالوں کے بیچوں بیچ بنائے گئے ہیں۔ یعنی کرونا وائرس کا مریض علاج کی جگہ پر پہنچنے سے پہلے پورے ہسپتال کا چکر لگائے گا، دس لوگوں تک وائرس پھیلائے گا اور پھر کہیں جا کر آئسولیشن سینٹر میں پہنچے گا۔
ڈاکٹرز کا مطالبہ ہے کہ انہیں علاج کے لیے کٹس دی جائیں، مان لیا کہ حکومت کے لیے ہزاروں ڈاکٹرز کو کٹس فراہم کرنا ممکن نہیں، مگر ہزاروں ڈاکٹرز کو ڈیوٹی پر رکھنا کیوں ضروری ہے؟ کیا یہ بہترنہ ہوتا کہ حکومت اس سلسلے میں وہی راستہ اختیار کرتی جو ترقی یافتہ ممالک نے اختیار کیے ہیں۔
کیا ہی بہتر ہوتا ہنگامی حالات میں ایک ایسی ہیلپ لائن قائم کر دی جاتی جہاں ڈاکٹرز بیٹھ کر معمول کے مریضوں کا ٹیلی فونک معائنہ کرتے۔ کرونا کے مشتبہ مریضوں سے علامات پوچھ کر انہیں ہدایات جاری کرتے اور مناسب جگہ پر ریفر کرتے۔ معمول کے مریضوں سے پیٹ درد کی نوعیت پوچھ کر دوا تجویز کر دیتے، ایسے مریض جو پہلے سے مختلف بیماریوں کی ادویات روٹین میں لیتے ہیں انہیں دوا کم کرنے، تبدیل کرنے یا لیتے رہنے کی ہدایت کرتے۔ ایسا کرنے سے ڈاکٹرز بھی محفوظ رہ سکتے تھے اور او پی ڈیز میں آنے والے ہزاروں لاکھوں مریض بھی۔ ایک صورت یہ ہو سکتی تھی کہ روٹین کے مریضوں کا معائنہ کرنے کے لیے ڈاکٹرز کو شیشے کے کیبن میں منتقل کر دیا جاتا اور وہ مائیکروفون کے ذریعے سے مریضوں کا انٹرویو کر کے ہدایات جاری کرتے۔ مگر اس سلسلے میں کوئی قدم سرے سے اٹھایا ہی نہیں گیا۔
حکومت سٹیٹ آف ڈینائل میں ہے۔ عوام کو یہ کہہ کر کریڈٹ لیا جا رہا ہے کہ دیکھیے ہم سے زیادہ ترقی یافتہ ممالک اس پر قابو نہیں پا سکے تو ہماری کیا مجال تھی ہم نے تو پھر بھی اسے کافی عرصے تک بارڈر پر روکے رکھا۔ کہا جا رہا ہے ہم اس خطے کا آخری ملک ہیں جہاں کرونا وائرس داخل ہوا۔ آج بھی کہا جا رہا ہے کہ دیکھئے امریکہ میں سو لوگ مر گئے ہمارے ہاں تو کوئی ہلاکت نہیں ہوئی۔ ان طفل تسلیوں سے خوش ہونے والوں کو خبر ہونی چاہیے کہ اب کرونا پاکستان میں آ چکا ہے۔ اس نے اپنے پنجے گاڑنے شروع کر دیے ہیں۔ تعداد چند ہی دن میں ہزاروں تک پہنچ سکتی ہے لیکن حکومت کے اقدامات دیکھئے کہ ڈاکٹرز کو ایک معمولی ماسک تک مہیا نہیں کیا گیا اور وہ اپنے طور پر مارکیٹ سے ڈھونڈکر خریدنے اور استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پنجاب میں کسی ایک سرکاری ہسپتال میں بھی کرونا کو ٹیسٹ کرنے کی سہولت موجود نہیں اور تمام مریضوں کے نمونے ایڈز کنٹرول پروگرام کے تحت چلنے والی لیب میں بھیجے جا رہے ہیں۔
یہ صورتحال جاری رہی تو خدانخواستہ وہ دن دور نہیں جب حکومت کا نظامِ صحت کرونا کے مریضوں کا معائنہ کرنے، ان کے نمونے حاصل کر کے رپورٹس جاری کرنے اور اس کے پھیلائو کو روکنے سے یکسر قاصر ہو جائے گا۔