Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Hukumat Ban Gayi, Kabeena Nahi Ban Pa Rahi

Hukumat Ban Gayi, Kabeena Nahi Ban Pa Rahi

آخر کیا ہوا کہ پیپلز پارٹی وزارتیں لینے پر راضی نہیں ہو پا رہی۔ ایم کیو ایم کے تحفظات کیا ہیں کہ انہیں بھی کابینہ میں آنا نہایت مشکل معلوم ہوتا ہے۔ ن لیگ کیوں چاہتی ہے کہ اتحادیوں کو ہر صورت حکومت میں شامل کیا جائے۔ حکومت بن گئی، کابینہ نہیں بن پا رہی۔

ایم کیو ایم کی پریشانی تو صاف ظاہر ہے۔ گذشتہ اتوار کو عمران خان کی کال پر باہر آنے والے پاکستانیوں نے حکومتی اتحاد میں شامل تمام جماعتوں کو حیران کر دیا۔

ایم کیو ایم کے لیے پریشانی کچھ بڑھ کر تھی کیونکہ یہی وہ جماعت ہے جس نے حکومت کی تبدیلی میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی میں بڑی تعداد میں لوگ باہر نکلے، ایم کیو ایم کے لیے غصے کا اظہار کیا، ان کے خلاف نعرے بازی کی گئی یہاں تک کہ پارٹی پرچم بھی نذر آتش کر دیے گئے۔ ایم کیو ایم کی پریشانی فطری ہے۔ ایک زمانے تک وہ کراچی میں بلا شرکت غیرے مقبول ترین جماعت کے منصب پر فائز رہی ہے۔ اب انہیں عہدوں اور وزارتوں کی خاطرغیر ملکی طاقت کے ایما پر حکومت کو دھوکہ دینے کا طعنہ دیا جا رہا ہے۔ ایسے میں ان کے لیے کابینہ میں شامل ہونا آسان فیصلہ نہیں رہا۔

16 اپریل کو تحریک انصاف کراچی میں ایک بڑا جلسہ کرنے جا رہی ہے۔ ایم کیو ایم کو تشویش ہے کہ کراچی کی یوتھ موجودہ حالات میں ایم کیو ایم کی بجائے تحریک انصاف کی طرف مائل ہے۔

بدھ کو پشاور میں ہونے والے جلسے میں شیخ رشید نے اعلان کیا کہ وہ کراچی کے جلسے میں ایم کیو ایم سے" ہیلو ہائے" کریں گے۔ شیخ رشید نے بھی ایم کیو ایم سے حساب برابر کرنے کا عندیہ دیا۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ کراچی میں تقریر کرتے ہوئے عمران خان ایم کیو ایم پر تنقید نہ کریں۔ لہذا فی الحال ایم کیو ایم 16 اپریل والے جلسے سے پہلے تو ہر گز کابینہ کا حصہ بن کے اپنے خلاف تنقید کو بڑھاوا نہیں دینا چاہتی۔

ادھر پیپلز پارٹی بھی شش و پنج میں پڑی ہے۔ ابتدا میں اس کے سامنے بڑا سوال یہ تھا کہ کیا بلاول کو کابینہ کا حصہ بننا چاہیے یا نہیں۔ دلائل دونوں طرف موجود تھے۔ ایک حلقے کا خیال تھا کہ اگر بلاول وزیر خارجہ سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کریں گے تو ایک تواپنے نانا کی تقلید کر رہے ہوں گے دوسرا انہیں مستقبل کے لیے کافی تجربہ حاصل ہو جائے گا۔ پارٹی میں دوسری رائے یہ تھی کہ مستقبل کے وزیر اعظم کے امیدوار اور پارٹی چیئرمین کا دوسری پارٹی کے وزیراعظم کے نیچے کام کرنا ہر گز مناسب نہیں۔

پیپلز پارٹی کے لیے دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ چند ہی ماہ بعد انہیں انتخابی میدان میں اترنا ہے۔ ظاہر ہے وہ ن لیگ کے ساتھ اتحاد بنا کر تو الیکشن نہیں لڑ سکتے، انہیں ایک دوسرے کے خلاف ہی نعرے لگانے ہیں۔ کابینہ سے نکلنے کے فورا بعد ایسا کرنا ان کے لیے آسان نہیں ہو گا۔ تیسرا پہلو یہ بھی ہے پیپلزپارٹی کو اس بات کا ادراک ہے کہ پاکستان بے شمار مسائل سے دوچار ہے، عوام کی نئی حکومت سے سب سے بڑی توقع مہنگائی کا خاتمہ ہے۔

پیپلز پارٹی کو معلوم ہے کہ مہنگائی ایک عالمی مسئلہ ہے، آنے والے مہینوں میں اس ضمن میں عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا جا سکتا۔ لہذا پیپلز پارٹی کابینہ میں آنے سے کترا رہی ہے کہ وہ ناکامیوں کا ملبہ اپنے سر نہیں لینا چاہتی۔ البتہ صدر، چیئرمین سینٹ اور اسپیکر کے عہدے کے لیے ان کی دلچسپی برقرار ہے۔

یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پیپلز پارٹی ان تینوں عہدوں کے حصول کے لیے دبائو بڑھانے کی خاطر کابینہ میں نہ آنے کی دھمکی دے رہی ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ سبھی وجوہات بیک وقت پیپلز پارٹی کے پیش نظر ہوں۔

دوسری طرف وزیر اعظم شہباز شریف چاہتے ہیں کہ اگر چند مہینے میں کامیابیاں نہیں سمیٹی جا سکتیں تو ناکامی کا ملبہ اکیلی ن لیگ پر نہیں گرنا چاہیے۔ دوسرا وہ باقی جماعتوں کو ساتھ ملا کر اپنی حکومت کو استحکام دینا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کوکابینہ میں شمولیت کے لیے منانے میں لگے ہیں مگر کوئی ماننے کو تیار نہیں۔ پیپلز پارٹی نے کہہ دیا کہ ان کے حصے کی وزارتیں بلوچستان عوامی پارٹی، ایم کیو ایم اور دیگر اتحادیوں کو دے دی جائیں۔

شہبا ز شریف ابھی تک کابینہ تو نہیں بنا پائے لیکن دھڑا دھڑ فیصلے کر رہے ہیں۔ معاشی میدان میں احکامات جاری کر رہے ہیں، پنشن میں اضافے کی منظوری دے دی گئی ہے۔ میٹرو بس میں مفت سفر کے احکامات جاری کر دیے گئے ہیں۔

نواز شریف اور اسحاق ڈار کو سفارتی پاسپورٹ جاری کرنے کے احکامات جاری کیے گئے، پیٹرول کی قیمت بڑھانے کا عندیہ دے دیا گیا ہے۔ لیکن مصطفی امپیکس کیس کی روشنی میں حکومت کوئی بھی قدم کابینہ کی منظوری کے بغیر نہیں اٹھا سکتی۔ وزیر اعظم شہباز شریف بہت سے اقدامات کرنے کی جلدی میں ہیں مگر کابینہ موجود نہیں ہے جو ان کے فیصلوں کے منظوری دے۔ لہذا نئی حکومت کو جلد از جلد کابینہ کی ضرورت ہے اور حکومت کے اتحادی اس پر آمادہ دکھائی نہیں دیتے۔

اگر پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نئی حکومت کی کابینہ کا حصہ نہیں بنتے تو خدشہ موجود رہے گا کہ کسی بھی وقت وہ کسی بات پر ناراض ہو کر اپنے راستے جدا کر سکتے ہیں۔ یوں حکومت کے لیے اپنے اہداف حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا اور ناکامی کا ملبہ اس پر آن گرے گا۔ خدشہ ہے کہ حکومت کی ناکامی آئندہ انتخابات میں اس کے لیے چیلنج بن کے کھڑی ہو جائے گی۔