بڑی اور بُری شکست کا داغ دھاندلی کے شور سے مٹایا نہیں جا سکتا۔ اتنی بُری شکست کے بعد سلیکشن کا الزام لگا کر خود کو تسلی دینا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔ بعض اوقات جیت کئی اعتبار سے ضروری اور اہم ہوتی ہے۔ مریم نواز کا ہدف صرف الیکشن جیتنا ہی نہیں تھا بلکہ کشمیر کے انتخابات جیت کر خود کو پارٹی کی قیادت کے اہل ثابت کرنا تھا۔ مزاحمت کے بیانیے کی مخالفت کرنے والوں کو بتانا تھاکہ یہی بیانیہ پارٹی کا مستقبل ہے اور مفاہمت والے غلطی پر ہیں۔ گلگت بلتستان کے بعد آزاد کشمیر کا الیکشن مریم نواز کی صلاحیتوں کا امتحان تھا۔ وہ اس امتحان میں بُری طرح ناکام رہیں۔ جیتنا تو شاید ممکن نہ تھا مگر 15 سیٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر کی پارٹی تو بن سکتی تھیں۔ بدترین شکست کے بعد ہونے والی بیرونی سے زیادہ اندرونی تنقید نے مریم نواز کو شدید ذہنی اذیت میں مبتلا کر دیا ہو گا۔ ذہنی سکون کے لیے بریک ضروری تھی، کورونا نے بروقت معاونت کی۔ اللہ انہیں جلد صحت یاب کرے۔
مریم نواز غلطی پر تھیں، محض جلسوں سے انتخابات نہیں جیتے جا سکتے، یہ بیانیہ ہوتا ہے جو آپ کو الیکشن جتواتا ہے۔ گراونڈ پر امیدواروں کی انتخابی حکمت عملی اور جلسہ گاہوں میں قیادت کا بیانیہ۔ مریم نواز کی الیکشن کیمپین کا بیانیہ غلط تھا۔ پوری کیمپین ایک نکتے پر ڈیزائن کی گئی کہ عمران خان کشمیر کو صوبہ بنانا چاہتا ہے۔ گرائونڈ پر کسی نے اس بات کا یقین نہ کیا لہذایہ نعرہ مقبولیت نہ پا سکا۔ لوگوں کو اپنے مسائل سے غرض ہے، کشمیر بھر میں سنجیدہ نوعیت کے مریضوں کو راولپنڈی لانا پڑتا ہے، تعلیمی ادارے بنیادی سہولیات سے محروم ہیں، روزگار ہے نہیں، کرپشن نے پورے کشمیر کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ آپ سوچیے لوگ ان تمام مسائل کے بارے میں سننا چاہ رہے ہوں اور آپ انہیں صوبے کی ایسی بحث میں دھکیل رہے ہوں جس کا سر ہو نہ پیر۔ ایسے میں الیکشن کیسے جیتا جا سکتا تھا۔
دوسرا فلسفہ مریم کا یہ تھا انہیں اس لیے ووٹ دیا جائے کہ وہ کشمیری ہیں، ان کے باپ دادا، ماں، نانی، دادی سب کشمیری ہیں۔ اس نعرے کو یوں تو مقبولیت ملی ہی نہیں، رہی سہی کسر بھی ایک فوٹو شاپ تصویر نے نکال دی۔ زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ لوگوں کو اس میں ذرا بھی دلچسپی نہیں کہ کوئی کشمیری ہے یا نہیں یا اس کا دادا کہاں کا رہنے والا تھا، لوگ پوچھتے ہیں کہ ان کا امیدوار اس حلقے میں رہتا ہے یا نہیں؟
الیکشن ہار کر مریم نواز کو کئی محاذوں پر سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ بیرونی تنقید تو انہوں نے جھیل لی لیکن پارٹی کے اندر سے ہونے والی شدید تنقید نے انہیں لازمی طور پرپریشان کیا ہو گا۔ اگر کسی نے غور کیا ہے تو اس کے ذہن میں یہ سوال ضرور پیدا ہوا ہو گا کہ شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز پورے کشمیر الیکشن کے دوران خاموش کیوں رہے۔ جلسہ ولسہ تو چھوڑیے ایک پریس کانفرنس تک نہ ہوئی۔ آزاد کشمیر تو چھوڑیے لاہور، سیالکوٹ، گوجرانوالہ اور راولپنڈی میں کشمیر ویلی کے حلقوں میں بھی ایک کارنر میٹنگ یا جلسے سے خطاب نہ کیا۔ دونوں باپ بیٹے نے مکمل خاموشی اختیار کیے رکھی اور مریم نواز کے بیانیے کو پٹنے کے لیے کشمیر کے پہاڑوں میں چھوڑ دیا۔ ادھر مریم نواز کو اس صورتحال کا ادراک تھا، انہیں معلوم تھا کہ صرف جیت ہی خاندانی مخالفین کا جواب دے سکتی ہے، مگر ایسا ہو نہ سکا۔ انتخابات کے بعد پارٹی کے اندر ایک بحث چھڑ چکی ہے۔ مزاحمت کے بیانیے کے مخالف ایک پھر سرخرو ہوئے اور کہہ رہے ہیں کہ اس بیانیے پر ہم کشمیر تو کیا پنجاب کے الیکشنز بھی نہیں جیت سکتے۔ اس کے ساتھ ہی پارٹی کے اندر یہ بحث بھی چھڑ گئی ہے کہ 2023 کا الیکشن کس بیانیے پر لڑا جائے۔ مریم نواز کے بیانیے پر یا شہباز شریف کے بیانیے پر؟ مریم نواز ہار ماننے کو تیار نہیں اور شہباز شریف اپنا سیاسی مستقبل مریم پر نہیں چھوڑ سکتے۔ یہی وہ وقت ہے جب انہیں اپنے اور مریم کے بیچ میں کچھ چیزیں طے کرنا ہوں گی۔ حالات اسی ڈگر پر چلتے رہے تو انتخابات کے قریب جا کر بگاڑ قابو سے باہر ہو گا اور بہت دیر ہو چکی ہو گی۔ پارٹی کے اندر مریم نوازکی دلیل یہ ہے کہ وہ اسی بیانیے سے حالیہ تمام ضمنی الیکشنز جیتی ہیں اور یہی بیانیہ انہیں آئیندہ بھی کامیاب کرائے گالیکن پارٹی کے لوگ سمجھتے ہیں کہ ضمنی انتخابات میں جیت کے محرکات کچھ اور تھے۔
ن لیگ کے لیے سبکی کی ایک اور بات یہ بھی ہے کہ پیپلز پارٹی ن لیگ سے دگنی سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے ن لیگ کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خود کو متبادل پارٹی کے طور پر زیادہ بہتر اور زیادہ منظم طریقے سے پیش کیا ہے۔ یہ حادثاتی طور پر نہیں ہوا۔ چند ہفتے پہلے آصف زرداری لاہور آ کر سیاسی ملاقاتیں کرتے رہے تو اس کا مقصد بھی یہی تھا کہ ن لیگ کے خلاف اتحاد بنائے جائیں۔ کشمیر میں نہایت باریک بینی کے ساتھ حلقوں کو ٹارگٹ کرکے پیپلز پارٹی نے گرائونڈ پر منظم کیمپین کی اور اس کے ثمرات گیارہ سیٹوں کی صورت میں سمیٹے۔ نبیل گبول کی اس بات سے اتفاق ممکن نہیں کہ ان کے ساتھ 16 سیٹوں کا وعدہ ہوا تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو کم از کم پانچ سیٹوں پر انہیں دوسرے نمبر پر ہونا چاہیے تھا جبکہ ایسا نہیں ہے۔ اگر نبیل گبول کی بات مان لی جائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ گیارہ سیٹوں کے بھی حقدار نہیں تھے، یہ بھی ان پر وعدے کے مطابق عنایت کی گئی ہے۔ میرے خیال میں نبیل گبول کا بیان اپنی ہی پارٹی کے خلاف ہے جس پر ان سے باز پُرس ہونی چاہیے۔
مختصر یہ کہ سیاست دلچسپ مرحلے میں داخل ہو رہی ہے 2023 کے انتخابات تک یہ کئی رنگ بدلے کی۔ آصف زرداری کی چالوں پر نظر رکھنا ہو گی۔ یہ دیکھنا بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہو گاکہ مریم کے بارے میں پارٹی کے مخالف نکتہ نظر رکھنے والے افراد کی تشویش کا کیا حل نکلتا ہے۔