عدالتی کیسز کو التوا میں ڈا لنے سے دو میں سے ایک فریق ضرور فائدے میں ہوتا ہے اس کے لیے ایک نہ ایک فریق روز عدالتوں سے کھیلتا نظر آتا ہے۔ وکلا اپنے موکل کو روزانہ نئی نئی ٹپس دیتے دکھائی دیتے ہیں اورکامیابی کے ساتھ کیس کو لٹکانے کا باعث بنتے رہتے ہیں۔ کمزور عدالتی نظام اس کھیل میں ایک مجبور کی سی حیثیت اختیار کر لیتا ہے گویا اس کے ہاتھ پائوں کسی نے باندھ دیے ہوں۔ میں عدالتوں میں اس وقت زیر سماعت کیسز کی چندمثالیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں جس سے ملزموں اور ان کے وکلا کا قانون کے ساتھ کھلواڑ کھل کے سامنے آ جائے گا۔
مثال کے طور پر رانا ثناء اللہ کا منشیات کا کیس ڈیڑھ سال سے انسداد منشیات کی عدالت میں چل رہا ہے۔ جس میں ابھی تک فرد جرم عائد نہیں ہو سکی۔ رانا ثناء اللہ کے وکلا ہر سماعت پر کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر لمبی تاریخ مانگ لیتے ہیں اور اس حربے کے ذریعے ڈیڑھ سال گزر گیا ہے۔ کبھی وکلا پیش ہو کر کہتے ہیں کہ آج رانا ثناء اللہ اسمبلی کے اجلاس میں مصروف ہیں، ڈیٹ دے دیں۔ کبھی رانا ثناء اللہ پیش ہو کر کہتے ہیں آج میرے وکیل اعظم نذیر تارڑ کسی دوسری عدالت میں مصروف ہیں، ڈیٹ دے دیں۔ کبھی رانا ثناء اللہ کے جونئیر وکیل آ کر کہتے ہیں میرے سینئرز اعظم نذیر تارڑ اورفرہاد علی شاہ نہیں آئے، لمبی ڈیٹ دے دیں۔ اس مرتبہ تو اے این ایف کے اسپیشل پراسیکیوٹر انعام اللہ پھٹ پڑے اور کہنے لگے ایسے کیسے کیس چلے گا، ڈیڑھ سال سے لمبی لمبی تاریخیں مانگی جا رہی ہیں اور پھر باہر جا کر کہتے ہیں کہ دیکھیں ہمارے خلاف تو کچھ ثابت نہیں ہو سکا۔ جج شاکر حسن نے تائید کرتے ہوئے کہا کہ واقعی باہر جا کر یہی کہا جاتا ہے کہ ہمارے خلاف کچھ ثابت نہیں ہو سکا، لہذا کیس کو چلنے دیں اور لمبی تاریخیں نہ مانگیں۔ اب اس کیس میں رانا ثناء اللہ کی بظاہرحکمت عملی یہ لگتی ہے کہ کیس کو کسی طرح تب تک لٹکایا جائے جب تک کہ رجیم تبدیل نہ ہو جائے، بعد کی بعد میں دیکھی جائے گی۔ دو سال اور گزر گئے تو معاملات شاید کنٹرول میں آ جائیں۔ وجہ کچھ بھی ہو، رانا ثناء اللہ کی طرف سے تاخیری حربے بہرحال جاری ہیں۔
قانون سے اسی طرح کا کھلواڑ کھوکھر برادران بھی کر رہے ہیں۔ کھوکھر پیلس گرانے جانے کے خلاف کبھی ایک عدالت میں جا پہنچتے ہیں تو کبھی دوسری عدالت میں۔ ایک عدالت سے سٹے لیتے ہیں تو دوسری عدالت میں کوئی دوسری درخواست دائر کر دیتے ہیں پھر وہیں متفرق درخواستیں دائر کرتے ہیں تاکہ بنیادی کیس التوا میں چلا جائے اور کیس کو اتنا الجھا دیا جائے کہ کسی کے لیے کھوکھر پیلس گرانا ممکن نہ رہے۔ اب مثال کے طور پر کھوکھر برادران نے سول کورٹ میں متفرق درخواست دائر کر دی ہے جس میں استدعا کی گئی ہے کہ جس چودھری فضل نامی شخص سے ہم نے زمین خرید ی اس کے تمام بچوں کو اس کیس میں فریق بنا دیا جائے اور باری باری سب کو عدالت بلایا جائے۔ اس متفرق درخواست پر سماعت اب 11فروری کو ہونی ہے۔ اب سوچیئے جب تک متفرق درخواست نہیں نمٹائی جائے گی چودھری فضل کی مرکزی درخواست پر سماعت نہیں ہو گی جس میں انہوں نے موقف اختیار کر رکھا ہے کہ کھوکھر برادران نے اس کی زمین دھوکے سے ہتھیائی اور ناجائز قبضہ کیا۔
بالکل اسی طرح سے شریف خاندان کے خلاف لاہور کی نیب عدالتوں میں تین مقدمات زیر سماعت ہیں۔ آشیانہ، رمضان شوگر مل، منی لانڈرنگ اور آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ منی لانڈرنگ کیس میں 110گواہان میں سے ابھی تک صرف 7 گواہان پر جرح ہوئی ہے۔ اسی طرح آشیانہ کیس میں نیب کے 85 گواہان ہیں، چھٹے پر جرح چل رہی ہے۔ آخر یہ کارروائی اتنی سست رفتاری سے آگے کیوں بڑھ رہی ہے۔ پچھلے ایک مہینے میں جو کچھ ہوتا رہا میں صرف وہ آپ کو بتا دیتا ہوں، پچھلے دو سال کا اندازہ آپ خود لگا لیجے گا۔ ایک روز شہباز شریف کے جونئیر وکیل نواز ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے اور کہا بیرسٹر امجد پرویز کی طبیعت ناساز ہے وہ آ نہیں سکے، اس لیے آج کارروائی نہ کی جائے۔ ایک دن شہباز شریف پیش ہوئے اور عدالت سے کہا میرے وکیل کسی دوسری عدالت میں مصروف ہیں وہ گیارہ بجے آئیں گے جب تک وہ نہ آئیں کارروائی شروع نہ کی جائے۔ جج امجد نذیر چودھری نے کہا عدالت کا وقت ضائع نہ کریں دوسرے وکیل کے ذریعے کارروائی کو آگے بڑھائیں لیکن شہباز شریف اصرار کرتے رہے کہ امجد پرویز کے آنے تک کارروائی نہ چلائی جائے۔ اسی طرح ایک روز شہباز شریف نے کہا آج میری طبیعت نا ساز ہے میں جیل جا کر آرام کرنا چاہتا ہوں، آج کارروائی نہ کی جائے۔ ایک روز شہباز شریف منی لانڈرنگ میں پیش ہو گئے لیکن حمزہ رمضان شوگر ملز کے کیس میں دوسری عدالت میں تھے، وکیل بھی انہی کے ساتھ تھے، لہذا دو گھنٹے تک ان کا انتظار ہوتا رہا، وہ دونوں آئے تو مختصر عدالتی کارروائی ہوئی کیونکہ تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ پھر ہر تاریخ پر جو بھی اگلی تاریخ ملنے لگتی ہے وکلا مزید آگے کی تاریخ مانگنے پر اصرار کرتے ہیں اور عدالت انہیں کچھ اور دن دے دیتی ہے، اس سے بھی کیس کی رفتار سست ہو جاتی ہے۔ آپ سوچیے یہ سب صرف ایک مہینے کے دوران ہوا، اس سے پہلے بھی یہی ہوتا ہو گا، اسی انداز میں چلتا رہا تو کیس نہ جانے کب مکمل ہو گا۔
سول عدالتوں میں چلے جائیں تو پائوں رکھنے کی جگہ نہیں جس سے پوچھیں کسی کے کیس کو دس سال ہو گئے، کسی کو پندرہ اور کسی کو بیس سال بیت گئے مگر کیس عدالتوں میں چل رہا ہے۔ طاقتور فریق اپنے تگڑے وکیلوں کے ذریعے عدالتوں کو الجھائے رکھتا ہے، سٹے چلتا رہتا ہے اور انصاف ہوا میں معلق ہو کے رہ جاتا ہے۔
عدالت سے باہر ایک ہی جملہ بار بار سننے کو ملتا ہے، ڈھائی سال ہو گے، پانچ سال ہو گئے پندرہ سال بیت گئے، دیکھئے میرے خلاف تو کچھ ثابت نہیں ہو سکا۔