Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Murad Ali Shah Hero Ya Zero?

Murad Ali Shah Hero Ya Zero?

ابتداء میں تو مراد علی شاہ یہ تاثر دینے میں کامیاب رہے کہ وہ کورونا کے پھیلائو کے حوالے سے بہت اچھا کام کر رہے ہیں اور یہ تاثر اس بنیاد پر قائم ہوا تھا کہ وہ فوری اور سخت لاک ڈائون کے حامی تھے لیکن کارکردگی کو صرف لاک ڈائون کی بنیاد پر نہیں پرکھا جا سکتا۔ لاک ڈائون ہو جانے کے بعد بھی بہت سے کام حکومتوں کے کرنے کے ہوتے ہیں جن کا سندھ حکومت کے ہاں شدید فقدان دکھائی دیا۔ سندھ حکومت کی کمزوریاں اور خامیاں سپریم کورٹ کے از خود نوٹس لینے کے بعد ہونے والی سماعتوں میں صاف نظر آئیں۔ پہلا سوال تو یہی پیدا ہوا کہ چلیں لاک ڈائون ہو گیا پھر؟ لاک ڈائون کا شکار ہونے والوں کے لیے آپ کے پاس حکمت عملی کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے پوچھا کہ کراچی کی گیارہ یونین کونسلز کیوں سیل کی گئیں تو پتہ چلا کہ وہاں کورونا کے کچھ کیسز سامنے آنے کی بنیاد پر سیل کیا گیا۔

عدالت نے پوچھا کہ سیل کیے گئے علاقے میں طبی سہولیات فراہم کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے، ان لوگوں کے طبی ٹیسٹ اور سکریننگ کیسے کی جائے گی اور اگر کسی مریض کا ٹیسٹ مثبت آیا ہو تو اس کے علاج کے لیے کیا طریقہ کار اختیار کیا جائے گا۔ حکومت متاثرہ شخص کو بچانے کے لیے کیا اقدامات کرے گی، مزید یہ کہ اس شخص کے خاندان اور ان افراد کا کیا ہو گا جو متاثرہ مریض سے مل چکے ہوں گے۔ عدالت کی جانب سے یہ بھی پوچھا گیا کہ کیا سیل کیے گئے علاقے میں میڈیکل ٹیم اور طبی عملہ تعینات کیا گیا ہے یا نہیں۔ ان سوالوں کے مناسب جوابات کے علاوہ ایڈووکیٹ جنرل سندھ کی جانب سے یہ بھی نہ بتایا جا سکا کہ گیارہ یونین کونسلز میں مثبت آنے والے مریض کتنے ہیں اور ان کے نام کیا ہیں۔ عدالت کی جانب سے پوچھے گئے ان سوالوں کے غیر تسلی بخش جوابات سامنے آنے پر معلوم ہوا کہ سندھ حکومت کے پاس لاک ڈائون کا شور مچانے کے علاوہ کوئی موثر حکمت عملی موجود نہیں ہے۔

دوسرا مسئلہ غریب عوام تک راشن اور رقوم کی ترسیل کا تھا۔ اس سلسلے میں پنجاب کی حکمت عملی واضح تھی کہ اس نے وفاق کے ساتھ مل کر رقوم کی ترسیل کا ایک موثر نظام وضع کیا مگر سندھ حکومت کا کہنا تھا کہ اس نے آٹھ ارب روپے کا راشن تقسیم کیا۔ سپریم کورٹ کی جانب سے استفسار کیا گیا کہ کیا آپ ایسی دستاویزات پیش کر سکتے ہیں جس سے ثابت ہو کہ آٹھ ارب روپے کا راشن بانٹ دیا گیا ہے۔

سوال واضح تھا کہ راشن کہاں سے خریدا گیا، کن لوگوں کو دیا گیا، راشن میں کیا کیا شامل تھا، ریکارڈ کہاں ہے۔ جواب میں بس یہ کہا گیا کہ سندھ حکومت نے یہ کام نہایت خاموشی اور راز داری سے کیا ہے تا کہ ریا کاری نہ ہو۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ یہاں گٹر کا ایک ڈھکن بھی لگائیں تو چھ لوگ تصویر بناتے ہیں راشن کی تقسیم اتنی رازداری سے کیسے کر دی گئی۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے جے ڈی سی کے سربراہ ظفر عباس کے کام کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ایک این جی او اتنا اچھا کام کر رہی ہے تو حکومت کیوں نہیں کر سکتی۔ اگر جے ڈی سی کے پاس ریکارڈ موجود ہے کہ اس نے کتنے لاکھ کلو دال کتنے لاکھ روپے میں خریدی، کس سے خریدی، کہاں لا کر رکھی، کن لوگوں کو دی توحکومت کے پاس ریکارڈ کیوں نہیں۔

ایک ٹی وی شو میں سعید غنی صاحب کو کہتے سنا گیا کہ سپریم کورٹ نے آٹھ ارب کی فگر نہ جانے کہاں سے لے لی ہم نے تو ایک ارب اور کچھ کروڑ روپے کا راشن تقسیم کیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب عدالت میں بار بار آٹھ ارب کا تذکرہ کر کے سندھ حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا اس وقت ایڈووکیٹ جنرل سندھ کی جانب سے وضاحت کیوں نہ کی گئی کہ جناب میں نے آٹھ ارب کا ذکر نہیں کیا یہ فگر درست نہیں۔ نہ ہی بعد میں مراد علی شاہ صاحب نے پریس کانفرنس میں اس کی وضاحت کرنا مناسب سمجھا۔ خود میرے ٹی وی شو میں شہلا رضا نے کہا کہ ہم نے ایک لاکھ خاندانوں میں اس طرح راشن تقسیم کیا کہ کسی کو پتہ بھی نہیں چلا۔ سوشل میڈیا پہ لوگوں نے سندھ حکومت اور شہلا رضا کا مزاق اڑاتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اس طرح راشن تقسیم کیا ہے کہ جنہیں دیا خود انہیں بھی پتہ نہیں چلا۔

ایک طرف تو سپریم کورٹ نے سندھ حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا، دوسری طرف علی زیدی اور فیصل وائوڈا میدان میں آ گئے اور سندھ حکومت کے اقدامات پر کھل کر تنقید کرنے لگے یہاں تک کہ ان دونوں کی "خدمات " کو کابینہ میں سراہا گیا۔ گویا کورونا پر سیاست بھی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔ لیکن یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ سندھ حکومت لاک ڈائون پر تو خوب اصرار کر رہی تھی لیکن اس کے پاس لاک ڈائون کے بعد کی کوئی حکمت عملی موجود نہ تھی۔

دوسری جانب سندھ میں اس خبر نے سنسنی پھیلا دی کہ ہسپتالوں میں مردہ حالت میں لائے جانے والوں لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اس خبر سے تاثر یہ پھیلا کہ لاک ڈائون کے دوران لوگ کورونا کا شکار ہو کر گھروں میں ہی انتقال کر رہے ہیں۔ یہ خبر بظاہر اس طرح درست نہیں لگتی جیسے پھیلائی گئی لیکن سندھ حکومت اس کی تردید کے لیے اعداد وشمار کی دستاویزات جاری نہ کر سکی۔ مراد علی شاہ کی جانب سے لاک ڈائون کی حمایت کرنے پر ابتداء میں تحسین ہوئی مگر مذید کوئی حکمت عملی نہ ہونے کے باعث ان پر خوب تنقید بھی ہوئی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ عمران خان کا یہ کہنا درست تھا کہ لاک ڈائون کے بعد کی حکمت عملی بنائے بغیر لاک ڈائون کرنا مناسب نہیں تھا۔