Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Murree Mein Uss Raat Hua Kya Tha?

Murree Mein Uss Raat Hua Kya Tha?

مری میں ہر چہرہ اداس تھا۔ وہ سیاح جن کے پیارے محفوظ تھے اور انہیں کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچا ہے ان کے چہروں سے بھی مسکراہٹ غائب تھی۔ وہ سیر کو آئے تھے اور تلخ یادیں لیے رخصت ہو رہے تھے۔ کوہساروں کی شہزادی نے برف کا سفید کفن اوڑھ رکھا تھا۔ ہوا مرنے والوں کے چہروں کی مانند سرد تھی۔ ہر کوئی یوں اپنے گھر کو لوٹ رہا تھا جیسے سیر کو آئے کسی شخص کو اپنے گھر سے کسی کے مرنے کی اطلاع آ گئی ہواور وہ نم آنکھوں کے ساتھ دورہ ادھورا چھوڑ کر پلٹ رہا ہو۔

سانحے کے اگلے دن مری جا کر اندازہ ہوا کہ حادثے کے اصل محرکات کیا تھے۔ لوگ برفباری میں کیسے پھنس گئے، ریسکیو ٹیمیں ان تک کیوں نہ پہنچ سکیں، حکومت کی کوتاہی کہاں کہاں تھی اور عوام سے کیا غلطیاں سر زد ہوئیں، مقامی لوگوں سے بات کریں تو وہ صورتحال کو الگ نظر سے دیکھتے ہیں۔ اُس رات لاکھوں گاڑیاں برفباری دیکھنے کی غرض سے مری میں داخل ہو چکی تھیں۔ مری اور گلیات کی سڑکیں پانچ ہزار گاڑیوں کی موجودگی کو ہی انتظامی دائرے میں لا سکتی ہیں۔ اس سے زائد گاڑیاں سڑک پر اتر آئیں تو وہ انتظامیہ کو بے بس کر دیتی ہیں۔

ہمارے ہاں یہ چلن عام ہے کہ لوگ جب ٹریفک جام دیکھتے ہیں توقطار توڑ کر آگے بڑھتے ہیں اور قطار کے سرے تک پہنچنے کی کوشش میں ایک اور قطار بنا دیتے ہیں، دیکھا دیکھی کچھ اور گاڑیاں انکے پیچھے ہو لیتی ہیں۔ جب ایک سے زائد قطاریں ایک سمت میں جمع ہو جائیں تو دوسری سمت سے آنے والی ٹریفک کو روک دیتی ہیں اور ڈیڈ لاک کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے جو گھنٹوں برقرار رہتی ہے۔

دوسرا مسئلہ تب ہوتا ہے جب ٹائروں پر زنجیر نہ چڑھانے کے باعث برفباری میں گاڑیاں پھسلنے لگتی ہیں۔ دو گاڑیاں بے قابو ہو کر سڑک پھر پھسل گئیں تو پیچھے آنے والی گاڑیاں رک جائیں گی گھنٹوں کے لیے ٹریفک جام ہو جائے گا۔ ایسے ہی ٹریفک جام کی تیسری وجہ غلط پارکنگ بھی ہے۔ اکثر سیاح خوبصورت نظارہ دیکھتے ہی گاڑی ایک سائیڈ پر کھڑی کرتے ہیں اور سیلفیاں بنانے نکل کھڑے ہوتے ہیں، تنگ راستے ہونے کے باعث پہلے ٹریفک کی رفتار سست ہوتی ہے اور پھر ٹریفک جام میں بدل جاتی ہے۔

اُس رات بھی انہی وجوہات کی بنا پر ہزاروں گاڑیاں ٹریفک جام میں پھنسی ہوئی تھیں کہ برفباری شروع ہو گئی۔ آن کی آن میں غیر متوقع طور پر برفباری طوفان میں بدل گئی۔ ابتدا میں لوگ محظوظ ہونے لگے کہ وہ یہی منظر دیکھنے تو آئے تھے۔ پھر تھوڑی ہی دیر میں حالات خراب ہونے لگے۔ وہ مقامات جہاں ہوٹل یا بازار نزدیک تھے وہاں لوگ حالات خراب ہوتا دیکھ اپنی گاڑیاں سڑک کنارے کھڑی کر کے محفوظ مقامات پر چلے گئے، جنہیں اپنے نزدیک ایسی کوئی عمارت دکھائی نہ دی انہوں نے وہیں ٹھہر کر صورتحال بہتر ہونے کا انتظار کیا اور ہر گزرتے لمحے حالات خراب ہوتے چلے گئے۔ کچھ ایسے بھی تھے جو کوئی صورت نہ پا کر باہر نکلے لیکن دیر ہو چکی تھی اور مجبورا انہیں واپس اپنی گاڑیوں میں آ کر بیٹھنا پڑا۔ اس رات ہزاروں سیاحوں نے رات اپنی گاڑی میں گزاری جن میں سے زیادہ تر ایبٹ آباد روڈ، مظفر آباد روڈ اورجھیکا گلی کے اطراف میں موجود تھیں۔

ایسے میں رہا یہ سوال کہ انتظامیہ کہاں سوئی ہوئی تھی۔ مری میں حالات کو اپنی آنکھ سے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے برفباری کے شدید طوفان اور ٹریفک جام نے ریسکیواداروں اور برف ہٹانے والی گاڑیوں کو مفلوج کر کے رکھ دیا تھا۔ برف ہٹانے والی مشینری ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکتی تھی کیونکہ سڑکوں پر ہزاروں گاڑیاں وقفے وقفے سے پھنسے ہوئی تھیں۔ اس کے باوجود کچھ مقامی تنظیموں کے کارکنوں اور ریسکیواہلکاروں نے قریب قریب کے ہزاروں سیاحوں کو ہوٹلوں، مسجدوں، مدرسوں، سکولوں یہاں تک کہ دکانوں اور برآمدوں تک پہنچایا لیکن ایسے بھی سیکڑوں سیاح تھے جن تک پہنچنا ممکن نہ ہو سکا۔

وہ لوگ جن تک کوئی نہ پہنچا اور وہ گاڑیوں میں ہی رات گزارنے پر مجبور ہو گئے، ان سے فیصلہ کرنے میں تین غلطیاں ہوئیں۔ ایک تو وہ گاڑی چھوڑ کر بروقت محفوظ مقام پر منتقل ہونے کا فیصلہ نہ کر سکے اور فیصلے میں تاخیر کے باعث کچھ دیر کے بعد ان کے پاس کوئی چارہ ہی نہ رہا۔ دوسرا انہوں نے سردی کا مقابلہ گرم کپڑوں سے کرنے کے بجائے گاڑی کے ہیٹر سے کرنے کا فیصلہ کیااور پھروہ یہ اندازہ لگانے میں ناکام رہے کہ گاڑی کا ہیٹر ان کی آکسیجن ختم کر رہاتھا۔

گاڑیوں میں رات گزارنے والے ہزاروں لوگ اپنی زندگی بچانے میں کامیاب بھی رہے یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے سرنڈر نہیں کیا، باہر نکلنے اور محفوظ جگہ تک پہنچنے کی راہیں تلاش کرنے میں لگے رہے یوں وہ مصروف رہے اور انہیں آکسیجن بھی ملتی رہی۔ لیکن وہ لوگ جو تھک ہار کر ہیٹر جلا کے سو گئے، انہیں آکسیجن کی فراہمی زیادہ دیر تک ممکن نہ رہی اور زہریلی گیس بھر جانے سے وہ ابدی نیند سو گئے۔ مقامی لوگوں کا خیال تھا کہ اگر خود کو اچھی طرح لپیٹ کر یہ لوگ برفباری میں رات بھر بھی محفوظ مقام کی طرف چلتے رہتے تو انہیں کچھ نہ ہوتا اورمحفوظ رہتے۔

مری میں چار روز سے بجلی منقطع ہے، لوگوں کے فون ڈسچارج ہو چکے ہیں، سردی کے باعث موبائل اور کیمروں کی فل بیٹری بھی اچانک ختم ہو جاتی ہے۔ ایسے میں لوگوں کو رابطے کرنے میں شدید دشواری کاسامنا کرنا پڑا۔ پاکستان میں کسی سیاحتی مقام پر سیاحوں کو مخصوص تعداد تک محدود کر دینے، باقیوں کوگھر واپس بھیجنے اور سہولیات کی دستیابی کے مطابق سیاحوں کو داخلے کی اجازت دینے کا کوئی تصور موجود نہیں۔

ماضی میں بھی جب سیاح گنجائش سے زیادہ تعداد میں داخل ہوئے تو گھنٹوں ٹریفکجام میں پھنسے، کئی لوگوں کو ہوٹل میں جگہ ملتی اور کچھ گاڑیوں میں ہی قیام کرتے لیکن چونکہ ماضی میں کبھی کسی کی موت واقع نہ ہوئی اس لیے ان تمام انتظامی کمزوریوں کی جانب کسی کی توجہ نہ گئی۔ اس بار بھی کسی کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ بائیس لوگ برف میں پھنس کر جان سے چلے جائیں گے، سب کا گمان یہی تھا ہمیشہ کی طرح صبح سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اگرمیڈیا سمیت کسی کے گمان میں ہوتا کہ صبح ہوتے ہی گاڑیوں سے معصوم بچوں کی لاشیں ملنے لگیں گی تو ریسکیو آپریشن کا منصوبہ ہنگامی بنیادوں پر اُسی وقت بنا لیا جاتا۔ لیکن ہر وقت ایسی صورتحال سے دوچار رہنے والے مقامی لوگوں نے بھی یہ نہ سوچا تھا کہ صورتحال یہ رخ اختیار کرتے گی۔

سانحے سے حکومت اور عوام کے لیے سیکھنے کو بہت کچھ ہے، اگرنتیجہ حاصل کر کے آئندہ کے لیے ضابطے بنا دیے گئے تو بہتر ورنہ اگلے سانحے پر یہ شور چند دن کے لیے دوبارہ مچے گا اور ایک دوسرے کو الزام دے کر پھر سے اگلے سانحے کا انتظار ہونے لگے گا۔