اپنی صلاحیتوں میں مسلسل اضافے کی کوشش ہی ترقی کی یقینی ضامن ہے۔ اپنے اوپر انویسٹ کرنا ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔ نئی چیزیں سیکھنا، نئے لوگوں سے ملنا، نئی کتاب پڑھنا اور نئے راستوں کا متلاشی رہنا، انسان کو آگے بڑھنے کے لیے مہمیز کرتا ہے۔ وہ جو پچھلے سال نہ ہو سکا، اس سال کرنے کا پختہ ارادہ اور ارادے کو تکمیل تک پہنچانے کی عملی کوشش اگلے سال کو پچھلے سال سے بہتر بنا دیتی ہے۔
اس کے لیے کچھ نیا آزمانے کی ضرورت نہیں۔ وہی جو دنیا کرتی ہے اسے دہرانا ہی کافی ہے۔ کامیاب لوگوں کی کچھ مشترک عادات ہوتی ہیں انہیں اپنا لیا جائے تو ترقی کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔ ان میں سے کچھ آسان ہیں اور کچھ مشکل، تو چلیے آسان سے شروع کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر کتاب پڑھناایک ایسی آسان عادت ہے، جوبا آسانی ایک شخص کو عام لوگوں سے ممتاز کرتی ہے۔ کتاب سستے داموں عام دستیاب ایک ایسی چیز ہے جس تک رسائی کسی کے لیے بھی مشکل نہیں۔ بس ابتداء میں چالیس پچاس صفحات روزانہ پڑھنے کی عادت اپنانی ہو گی۔ اکثر لوگ پوچھتے ہیں کیا پڑھیں، اس کا سادہ سا جواب یہ ہے اپنی دلچسپی کی جو چیز مل جائے پڑھ ڈالیں۔ مطالعے کے لیے موضوعات کی کوئی قید نہیں۔ فکشن، سیاست، بائیوگرافی، سفرنامہ، مذہب، تاریخ اور فلسفہ جس میں انسان کی دلچسپی پیدا ہو جائے وہ پڑھ لینا چاہیے۔ کتاب پڑھنے اور نہ پڑھنے والا کبھی برابر نہیں ہو سکتے۔ کتاب کے مطالعے سے سوچ کی نئی جہات کھلتی ہیں، نئے آئیڈیاز آتے ہیں، سوچ اور شخصیت میں ٹھہرائو پیدا ہو تا ہے، بے چینی ختم ہوتی ہے۔ لوگوں کے تجربے سے استفادہ کرنے کا موقع ملتا ہے۔ کتاب پڑھنے سے نئی تہذیبوں سے تعارف ہوتا ہے، ماضی میں سفر کیا جا سکتا ہے اور مستقبل کا نقشہ کھینچا جا سکتا ہے۔ لہذا کتاب بینی کی عادت کامیاب لوگوں کی عادات میں شامل ایک لازمی چیز ہے۔ اس لیے نئے سال کے اہداف میں کم سے کم پندرہ سے بیس کتابوں کا مطالعہ ترجیحات میں شامل رہنا چاہیے۔
کامیاب لوگوں کی دوسری عادت ٹریولنگ ہے۔ آپ صرف پاکستان ہی کو دیکھئے ہر سو کلو میٹر کے بعد زبان، کلچر، رہن سہن اور اطوار بدل جاتے ہیں۔ میدانی علاقوں کا کلچر الگ، صحرا میں بسنے والوں کا انداز جدا، پہاڑوں پہ رہنے والوں کی تاریخ مختلف، سرحد پر واقع رہائشیوں کے تجربات الگ۔ صرف پاکستان ہی کے کونوں کا سفر شروع کردیں تو اتنا مواد اکٹھا ہو سکتا ہے کہ انسان کئی کتابیں لکھ ڈالے۔ سفر کے دوران پیش آئے تجربات انسان کی شخصیت کا حصہ بن کر اسے نکھارتے اور معاملہ فہمی جیسی خصوصیات پیدا کرتے ہیں۔ اب جو لوگ بیرون ملک سفر کرتے ہیں طرح طرح کے زبانیں سنتے، الگ الگ لوگوں سے ملتے، مختلف طرح کے کھانے کھاتے اور ہر علاقے سے جڑی الگ الگ طرح کی کہانیاں سنتے ہیں تو سوچیئے وہ کس وسیع تجربے کے حامل لوگ بن جاتے ہیں۔ ایک ملک کا دورہ کئی کتابوں کے مطالعے جیسا ہے۔ ایک علاقے سے جڑی کہانی سننے کا مطلب کہانیوں کی ایک کتاب پڑھنے سے مختلف نہیں۔ بلکہ کہانیوں میں تو کردار آنکھ سے اوجھل ہوتے ہیں، سفر میں تو کہانی کے جیتے جاگتے کردار آپ کی آنکھوں کے سامنے پھر رہے ہوتے ہیں۔ لہذا سال میں ایک دو بار پیسے جمع کر کے بیرون ملک دوروں کی عادت انسان کی شخصیت کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور اگر اتنے پیسے نہ ہوں کہ بیرون ملک سفر کیا جاسکے تو کچھ نہ کچھ جوڑ توڑ کر کے اندرون ملک مختلف تہذیبوں سے آشنائی ضرور حاصل کرنی چاہیے۔ کیلاش میں بسنے والوں کی کہانی کیلاش جا کر ہی سمجھی جا سکتی ہے، تھرپارکر کے باسیوں کا رہن سہن مشاہدہ کر کے ہی سمجھا جا سکتا ہے، گھر کے باہر سے روزانہ برف اٹھانے والوں کی کہانی میدان میں رہنے والے لوگ یوں نہیں سمجھ سکتے۔ لہذ اٹریولنگ کی عادت اپنانا نہایت ضروری ہے۔
کامیاب اور آگے بڑھنے والے لوگوں کی ایک اور عادت ہوتی ہے اور وہ یہ کہ وہ روز نئے لوگوں سے ملنے کی جستجو میں رہتے ہیں۔ ہمارے ہا ں بے شمار ایسے لوگ موجود ہیں جو وسیع تجربہ رکھنے اور ایک آدھ کتاب لکھنے کے بعد ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں، انہیں جب فون کر کے ایک کپ چائے پینے کی درخواست کی جائے تو وہ بخوشی راضی ہو جاتے ہیں۔ گفتگو کے دوران وہ ایسی باتیں بھی شئیر کرتے ہیں جو وہ کسی وجہ سے کتاب میں نہیں لکھ پائے ہوتے۔ ایسے لوگوں سے ملنا زندگی کا اثاثہ ہوتا ہے۔ مجھے ڈاکٹر مبشر حسن، ملک معراج خالد، مختار مسعود صاحب اور جیون خان صاحب سمیت ایسے کتنے ہی لوگوں سے ان کی زندگی کے آخری حصے میں ہونے والی ملاقاتیں یاد ہیں جس کے نتیجے میں زندگی کے بہت سے سبق ملے۔ ایک شخص سے ملنا ایک بائیو گرافی پڑھنے جیسا ہے لہذا دو ہفتے میں کم ازکم ایک بار کسی ایسی تاریخ ساز شخصیت سے مل لیا جائے تو نہایت مفید ثابت ہوتاہے۔
انگریزی کی ایک کہاوت ہے، روٹین کی زندگی گزارتے ہوئے غیر متوقع نتائج کی توقع رکھنا حماقت ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم کمفرٹ زون سے نکلنا بھی نہیں چاہتے لیکن موجودہ سے زیادہ کی توقع رکھتے ہیں۔ نئے راستوں کی جستجو، کچھ زیادہ کرنے کی آرزو اور کامیاب راستے پر چلنے کی خواہش کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ضروری ہے کہ اپنے کمفرٹ زون سے باہر نکل کر مشکلات کا سامنا کیا جائے۔ خوب سوچ و بچار کے بعد فیصلہ کرنا اور پھر ڈٹ جانا، خود اور خدا پر یقین رکھنا اور ہدف کے حصول کے لیے مسلسل جدوجہد کرنا ہی کامیاب داستان کو جنم دیتا ہے۔ محشر آفریدی کا شعرہے:
تجربہ مفت میں نہیں ملتا
پہلے نقصان کرنا پڑتا ہے
تجربہ کار ہونے کے بعد کامیابی کا راستہ شروع ہوتا ہے جو 2021میں ہماری منتظر ہے۔