انیس برس قبل ہارون الرشید صاحب نے "نوکری " کے عنوان سے ایک کالم تحریر کیا، جس میں ایک "اللہ کے نوکر" حاجی نیامت علی کی کہانی بیان کی۔ آج انیس برس کے بعد یہ کہانی جب مجھ تک پہنچی، تو "نوکری" سے بہتر عنوان مجھے بھی نہیں سوجھ رہا۔ اللہ کا بندہ اللہ کی نوکری نہیں کرے گا تو کیا کرے گا، اس کے علاوہ اس کا کوئی کام ہے کیا؟ افسوس ہم میں سے بہت سے اپنا کام بھول چکے مگر حاجی نیامت علی کو خوب یاد ہے۔ انیس برس بعد بھی یاد ہے، بلکہ انیس برس بعد نہیں چالیس برس بعد بھی یاد ہے۔
یہ انیس سو اکیاسی کی بات ہے، چالیس برس پہلے کی، جب آبائی زمین بکنے کے بعد نوے لاکھ روپے حاجی نیامت علی کے حصے میں آئے۔ اُس وقت کے نوے لاکھ آج کے کروڑوں روپے۔ ذرا سوچیے آج آپ کے یا میرے پاس رہنے کے لیے مناسب گھر نہ ہو سفر کے لیے گاڑی نہ ہو اور حصے میں اچانک کروڑوں روپے آ جائیں تو کیا کریں گے۔ ایک شاندار سا گھر بنوائیں گے، ایک اچھی سی گاڑی خریدیں گے، باقی کے روپے کاروبار میں لگا دیں گے، کہیں انویسٹ کر دیں گے یا بچوں کے لیے رکھ چھوڑیں گے۔ لیکن حاجی نیامت علی نے ایسا نہیں کیا۔ چھ ماہ تک تو اپنے روپے لینے نہ گئے کہ ان پیسوں کا وہ کریں گے۔ کرنا تو بعد کی بات انہیں گنیں گے کیسے؟ کیونکہ انہیں بیس سے اوپر کی گنتی بھی نہیں آتی تھی۔ خریدار کی جانب سے بار بار کی یاد دہانیوں کے بعد بالآخر روپے لے آئے تو کئی دن پریشان رہے کہ ان کی ضرورت تو سو دو سو روپے روزانہ کی ہوتی ہے، اتنے بہت سے روپوں کا کیا کریں گے۔ پریشان ہو کر کچھ دن بعد اپنے بزرگوں سے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ روپے اللہ کی طرف سے ملے ہیں، اللہ کی راہ میں خرچ کر دو۔ پھر کہا کہ سنو پورے نہیں تو آدھے ضرور کر دو۔
حاجی نیامت علی نے لاہور میں ٹھوکر نیاز بیگ سے چند کلو میٹر دور ہنجر وال گائوں کے قریب مین ملتان روڈ پر چار کنال رقبے کی ایک تین منزلہ عمارت خریدی اور اس کی پیشانی پر "فی سبیل اللہ مسافر خانہ " لکھوا کر اسے پناہ گاہ کی شکل دی اور اللہ کی راہ میں وقف کر دیا۔ تب سے آج تک سینکڑوں مسافر، دیہاڑی دار مزدور اور بے گھر افرادروزانہ اس پناہ گاہ میں آ کر ٹھہرتے، رات گزارتے، دعائیں دیتے اور اگلی منزل کی جانب روانہ ہو جاتے ہیں۔ کچھ مزدور تو ایسے ہیں جنہوں نے یہاں مستقل ٹھکانہ کر لیا ہے۔ ایسے ہی ایک مزدور سے میری ملاقات ہوئی تو کہنے لگا پہلے چوبرجی کے پاس کھلے پارک میں سویا کرتا تھا، دو سال سے یہاں قیام کر رکھا ہے، عزت اور سکون سے رات گزارنے کو مل جاتی ہے۔
ایک زمانے تک یہ معمول رہا کہ جب سب مزدور مزدوری کو نکل جاتے اور صبح کے وقت مسافر خانہ خالی ہو جاتا تو حاجی نیامت علی ہاتھ میں جھاڑو لیے پوری عمار ت کی اپنے ہاتھ سے صفائی کرتے یہاں تک کہ باتھ روم کی بھی۔ بہت سے لوگوں نے کہا اس کام کے لیے کوئی ملازم رکھ لیں تو چٹے ان پڑھ" نوکر" نے جواب دیا کہ ملازم رکھنے سے میں اللہ کا نوکر کیسے کہلائوں گا جب اللہ کی نوکری کرنی ہے تو ملازموں سے کام کیونکر کرائوں۔ سالہا سال تک وہ یہ خدمت اپنے ہاتھ سے کرتے رہے جب تک کہ بہت بوڑھے نہ ہو گئے۔
حال ہی میں کورونا وائرس کے آنے کے بعد ایک اور مسئلہ پیدا ہوا، دیہاڑی دار مزدوروں کی روزانہ اجرت کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ کھانے پینے اور گھر والوں کو پیسے بھجوانے کا مسئلہ درپیش ہوا تو حاجی صاحب نے خصوصی انتظامات کرتے ہوئے ان مزدوروں کے نہ صرف کھانے پینے کا مسلسل انتظام کیا بلکہ مالی معاونت بھی کی تا کہ ان کی راہ دیکھنے والے ان کے خاندانوں کو پیسے بھجوا کر ان کا نظام زندگی بحال رکھا جا سکے۔
جب سے یہ کہانی میرے علم میں آئی ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ چالیس برس پہلے بات دوسری تھی، تب ضروریات کم تھیں، زندگی سادہ تھی، روپوں کی طلب ہو سکتا ہے آج جتنی نہ ہو، تب بچے چھوٹے ہوں گے، تب حاجی نیامت علی نے ایک بڑی عمارت مزدوروں کے لیے مختص کر کے فی سبیل اللہ مسافر خانہ بنوا دیا۔ مگر آج اس زمین کی مالیت اربوں میں ہے، اولاد جوان ہو چکی ہے، کچھ بچے پراپرٹی کے کاروبار سے ہی وابستہ ہیں جو علاقے کی سطح پر محدود نوعیت کا ہے، آج اگر حاجی صاحب کے بچے اس مسافر خانے کی جگہ کو بیچ کر پراپرٹی کے کاروبار کا دائرہ وسیع کر لیں تو بہت پیسے کما سکتے ہیں۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ مرکزی شاہراہ پر واقع اس قیمتی جگہ کو فروخت کر کے اس کی جگہ مسافر خانے کو کسی سستی آبادی اور کم قیمتی جگہ پر شفٹ کر دیں اور مزدوروں کو نیا پتہ بتا دیں، کام تو چلتا رہے گا، ثواب بھی ملتارہے گا۔ یہ سوال میں نے حاجی نیامت سے پوچھ ہی لیا، چٹے ان پڑھ" نوکر"نے جواب دیا، اپنی سب سے قیمتی چیز کو اللہ کی راہ میں قربان نہ کیا تو کیا محبت کی۔ حاجی صاحب کی بات سن کے میں لاجواب ہو گیا۔
یہ کہانی سنانے کا مقصد ترغیب دینے کے سوا کیا ہو سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے ہم میں سے سب لوگ ایسی پناہ گاہیں بنا کر روزانہ اتنے لوگوں کو کھانا نہ کھلا سکتے ہوں، مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم میں بہت سے لوگ روزانہ یا کم از کم ہفتے میں ایک بار کچھ لوگوں کو کھانا نہ کھلا سکتے ہوں۔ اپنی استطاعت کے مطابق دس، بیس لوگوں کے لیے کھانے کا اہتمام کر کے انہیں اپنے ہاتھ سے کھانا کھلا دیا جائے تو دل کے اطمینان کا اس سے بڑھ کے کوئی سامان نہیں ہو سکتا۔ یوں بھی خدا صرف نیت اور جذبہ دیکھتا ہے کھانا کھلائے جانے والے افراد کی گنتی نہیں کرتا۔ اللہ کی نوکری کر کے دیکھئے کہ اس سے زیادہ سکون کسی چیز میں نہیں۔