حکومت نے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے چند بل ہی منظور نہیں کرائے بلکہ اپنی اس کامیابی سے اپنے حریفوں کو بہت سے پیغام بھی دیے۔
چند دن پہلے اتحادیوں کے گلے شکووں پر تبصرہ کرتے ہوئے اپوزیشن کے بہت سے رہنمائوں کا خیال تھا کہ حکومت کے اتحادی اس ناراضی کا اظہار اپنی مرضی سے نہیں کر رہے ہیں بلکہ وہ کسی کے اشارے پر حکومت کو ٹف ٹائم دے رہے ہیں اور ایسے میں حکومت کا وجود برقرار رکھنا مشکل نہیں رہے گا۔ اسی خوش فہمی کا شکار ہو کر مولانا فضل الرحمن اور نواز شریف نے ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو میں قومی اسمبلی کے اسپیکر، چئیرمین سینیٹ اور وزیر اعلی پنجاب کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے عہد و پیمان بھی باندھ لیے تھے۔ مولانا فضل الرحمن اور ہم خیالوں کو لگتا تھا "ایک صفحہ" برقرار نہیں رہا جس کی وجہ سے اس حکومت کے گھر جانے کا وقت ہو گیا ہے۔ یہی سوچ کر اپوزیشن نے سڑکوں پر احتجاج کی عوامی تحریک بھی تیز کر دی تھی۔
پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں حکومتی بل کو پڑنے والے اتحادی ووٹوں کی تعداد سے اپوزیشن سمیت سب کو اندازہ ہو گیا کہ "ایک صفحہ" برقرار ہے۔ مزید مہر تصدیق عامر لیاقت حسین نے ثبت کر دی جب فرمایا" ہم آئے نہیں، لائے گئے ہیں "۔ عامر لیاقت کے بیان کو حکومت کی مخالفت میں دیا گیا بیان سمجھنا سادگی ہو گی۔ بین السطورمیں انہوں نے کہہ دیا ہے کہ ناراض اراکین اور اتحادیوں کو جوڑنے میں صفحے پر موجود دوسرے فریق نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ صورتحال اگر یہی ہے تو حکومت اور ریاست کے لیے اس سے اچھی بات اور کیا ہو گی؟
پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے اپوزیشن کو یہ اندازہ بھی ضرور ہوا ہو گا، ان حالات میں حکومتی اتحادیوں کو ساتھ ملا کر پنجاب یا مرکز میں تحریک عدم اعتماد لانا آسان نہیں، لہذا ایسے کسی ایڈوانچر میں پڑ کر ہزیمت نہیں اٹھانی چاہیے۔ کچھ عرصہ پہلے بلوچستان میں چلنے والی تبدیلی کی ہوا کے دوران طرح طرح کے تبصرے کیے گئے، کہا گیا اب یہ کہانی بلوچستان تک نہیں رکے گی، اس کے اثرات پنجاب اور مرکز تک بھی پہنچیں گے۔ اب ثابت ہوا یہ مقامی سیاست ہی کا شاخسانہ تھا، اس تحریک اور تبدیلی کے پیچھے خفیہ طاقتوں کا عمل دخل نہ تھا۔ لہذا خواہش پر مبنی خبر یں دم توڑ گئیں اور صاف نظر آتاہے عمران خان کی حکومت کے مدت پورا کرنے کی راہ میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں۔
شکست کو حوصلے اور سمجھداری سے تسلیم کرنا اور اپنی منصوبہ بندی کو فہم و فراست کے ساتھ نئے سرے سے ترتیب دینا اتنا آسان نہیں۔ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں منظور ہوتے بلوں کو دیکھ کر حزب اختلاف افراتفری کا شکار نظر آئی اور تمام پہلووں پر غور کیے بغیر اعلان کر دیا کہ وہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ملنے کے قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے۔ اعلان تو شدو مد کے ساتھ ہو گیا لیکن شاید اپوزیشن نے اس سے پہلے قانونی مشاورت مکمل نہ کی تھی ورنہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں شامل سینئر قانون دان انہیں مشورہ دیتے کہ ان بلوں میں چونکہ کوئی بنیادی انسانی حقوق متاثر یا سلب نہیں ہوئے ہیں اور قانون سازی پارلیمنٹ کا حق ہے لہذا سپریم کورٹ سے مطلوبہ ریلیف ملنا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حکومت کو الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے متعلق بل منظور ہونے پر زیادہ رنج اور تشویش ہے۔ لیکن میری دانست میں اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ملنا اپوزیشن کے لیے زیادہ خطرے کی بات ہے۔ پاکستان میں بیس سے زائد قومی اسمبلی کے ایسے حلقے موجود ہیں جہاں اوورسیز رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد ہزاروں میں ہے لیکن پی ٹی آئی وہاں چند سو ووٹوں سے ہاری۔ عام تاثر یہ ہے کہ اووسیز ووٹرز میں بڑی تعداد پی ٹی آئی کی سپورٹرکی ہے۔ ایسے میں اگر ٹرن آوٹ پچاس فیصد بھی رہتا ہے تو اوورسیز ووٹرز پی ٹی آئی کے ہارنے والے والے امیدواروں کو جیت دلا سکتے ہیں۔ اب آپ سوچیے کہ اگر کسی پارٹی کی سیٹوں میں بیس سے پچیس کا اضافہ ہو جائے تو صرف ایک بل کی مدد سے یہ کتنا بڑا اضافہ ہے۔ لہذا میرا خیال ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین تو شاید نتائج میں اتنا بڑا فرق نہ ڈال سکے البتہ ای ووٹنگ پی ٹی آئی کا اپنے لیے ایک اہم کارنامہ ہے۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اگلے انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے ہوں گے یا نہیں تو اس بارے میں کہنا قبل از وقت ہے۔ الیکشن کمیشن کو اس سلسلے میں شدید تحفظات ہیں انتظامی طور پر ایک بہت بڑا پراجیکٹ ہے جسے عمل میں لایا جانا ہے۔ الیکشن کمیشن اپنی انتظامی صلاحیتوں کا عذر پیش کرتے ہوئے پہلے ہی مخالفت کر چکا ہے۔ لہذا یہ اتنا آسان دکھائی نہیں دیتا۔
لیکن سب سے زیادہ اہم سوال اپنی جگہ اب بھی قائم ہے اور وہ یہ کہ اتفاق رائے پیدا کیے بغیر دھاندلی کا شور کیسے ختم کیا جا سکتا ہے۔ اگر الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے انتخابات ہو بھی جائیں اور پی ٹی آئی انتہائی شفاف طریقے سے دوبارہ حکومت میں آ بھی جائے توبھی اگلے پانچ سال سڑکوں پر یہی شور مچتے گزر جائیں گے کہ ووٹ ای وی ایم کے ذریعے چوری کر لیے گئے اور یہ جعلی حکومت ہے۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی محسوس ہوتی ہے کہ اتفاق رائے نا گزیر ہے۔ اس کے بغیر یہ مشق شاید سود مند نہ ہو گی۔
اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے ایک تجویز شہباز شریف کی طرف سے دی گئی کہ حکومت اور اپوزیشن کی ایک مشترکہ کمیٹی بنا دی جائے جو انتخابی اصلاحات پر مشاورت کر کے بل پارلیمنٹ کے سامنے لائے جیسا کہ ن لیگ کے زمانے میں ہوا تھا۔ لیکن دیکھا جائے تو ن لیگ کے زمانے میں یہ کمیٹی 2014 میں بنی 2017 تک اس کے درجنوں اجلاس ہوئے پھر کہیں جا کر اتفاق رائے ہوا اس میں ای وی ایم اور ای ووٹنگ جیسی مشکل چیزیں شامل نہ تھیں۔ اب اگر ایسی کوئی کمیٹی بنا دی جاتی ہے تو اگلے انتخابات تک کوئی نتیجہ برآمد ہوتا نظر نہیں آتا شاید حکومت اسی لیے شہباز شریف کے اس آپشن کی طرف نہیں آتی۔
ان تمام دلائل کی روشنی میں آنے والے دنوں میں اپوزیشن کے لیے خیر کی خبریں آتی نظر نہیں آتیں۔