سنتے تھے سرگودھا میں دنیا کا سب سے اچھا کینو پیدا ہوتا ہے۔ اب پتہ چلا یہ سرا سر جھوٹ ہے بلکہ حقیقت یہ سامنے آئی کہ سرگودھا کا کینو کوالٹی کے اعتبار سے سب سے نچلی سطح پر ہے۔ ہمیں خوش فہمی تھی کہ پاکستان کینو کا بہت بڑا ایکسپورٹر ہے، معلوم ہوا ایسا نہیں ہے بلکہ پاکستان کے کینو کی ایکسپورٹس گرتے گرتے نہایت نچلی سطح پر آئی گئی ہیں اور خطرہ ہے کہ یہی صورتحال رہی تو جلد کینو پاکستان سے باہر جانا بند ہو جائے گا۔
وجوہات بہت سی ہیں، سب سے بڑی یہ کہ ہم بیس سال پرانی بریڈ سے کینو حاصل کر رہے ہیں۔ دنیا میں بڑے بڑے سٹرس ریسرچ سینٹرز جدت کی انتہائوں کو چھو رہے ہیں۔ زیادہ اچھا، زیادہ صحت مند اور زیادہ تعداد میں پھل حاصل کرنے والی بریڈز متعار ف کرائی جا چکی ہیں۔ ہر روز نئی بریڈز نئی بیماریوں کے خلاف لڑنے کی صلاحیت کے ساتھ سامنے آ رہی ہیں۔ مگر ہم بیس سال پرانی بریڈ سے وہ پھل حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو کسی صورت دنیا کے سٹرس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ وقت کے ساتھ ساتھ نئی بیماریاں وجود میں آ چکی ہیں جن سے لڑنے کی صلاحیت پرانی بریڈ میں موجو د نہیں، ہم زیادہ سے زیادہ سپرے استعمال کر کے پھل کو بچانے کی کوشش میں ہیں۔ نتیجہ یہ نکل رہاہے کہ پچھلے بیس سال میں ہمارا اے گریڈ فروٹ بی گریڈ اور سی گریڈ میں تبدیل ہو کر رہ گیا ہے۔ یہ اچانک نہیں ہوا، دس سال سے آہستہ آہستہ بی گریڈ پروڈکشن زیادہ ہو رہی ہے، ستر فیصد یا اس سے زائد کینووں کا سائز چھوٹا رہ رہا ہے، سائز بڑا ہے تو کینو صحت مند نہیں ہے۔ کُل ملا کر صرف تیس فیصد پھل باہر بھیجنے کے قابل بچا ہے۔ تیس فیصد بھی اس لیے کہ روس میں چھوٹے کینو کی ڈیمانڈ زیادہ ہے، ہمارا چھوٹا کینو روس میں برآمد کیا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت پاکستانی کینووں کا سب سے بڑا خریدار روس ہی بچا ہے۔ روس کی ڈیمانڈ کے مطابق بھی چھوٹا کینو بھیجنے میں مسئلہ یہ آ رہا ہے کہ وہ بھی مطلوبہ معیار کے مطابق نہیں رہا۔ خدشہ ہے کہ صورتحال یہی رہی تو پاکستان سے کینو کی ایکسپورٹ بالکل ختم ہو جائے گی اور ایسا ہونے میں صرف تین سے چار سال لگیں گے۔
پاکستان کے کینو کی ڈیمانڈ کم ہونے کی ایک وجہ یہ بھی کہ کینو پیدا کرنے والے ممالک سیڈ لیس یا بغیر بیجوں والے کینو مانگ رہے ہیں۔ سیڈ لیس کینو سٹرس کی وہ جدیدبریڈ ہے جو ماحولیات سے مطابقت رکھتی ہے۔ ایسے ممالک کو خطرہ ہے کہ اگر کینووں کی پرانی بریڈ امپورٹ کی گئی تو کینووں کے ساتھ ان کا بیج بھی آ جائے گا اور وہ نہیں چاہتے کہ پرانی نسل کا بیج ان کی سرزمین پر قدم رکھ کے نئی نسل کو خراب کرے۔ پاکستان نے اب تک اس جانب کوئی توجہ نہیں دی۔ یعنی ہم اپنی دکان پر پرانا سامان رکھ کے بیٹھے ہیں اور دنیا جدید ٹیکنالوجی خریدنا چاہتی ہے۔
سرگودھا میں بھی ایک سٹرس ریسرچ انسٹیٹیوٹ قائم ہے۔ اول تو وہ ایسا موثر نہیں کہ جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہو، نئی بریڈز کو متعارف کرانے میں کوئی کردار ادا کرے۔ دنیا کی ڈیمانڈ کو پورا کرنے کے لیے کسانوں کی مدد کرے۔ یہ ایک ایسا سینٹر نہیں کہ جس میں مکمل بجٹ اور اختیار کے ساتھ ریسرچرز بیٹھے کام کر رہے ہوں، ایسا ہوتا تو کینو کی ایکسپورٹ انڈسٹری دم توڑنے کے دھانے پر نہ ہوتی۔ یہاں جو برائے نام کام ہو بھی رہا ہے وہ بھی گرورز تک نہیں پہنچ رہا۔ کینو کے باغات اُگانے والوں اور ریسرچ سینٹر کے مابین کوئی ہم آہنگی نہیں۔ یعنی جس کا جو جی چاہے اگائے جو جی چاہے لگائے۔ نتیجہ وہی جو نکل رہا ہے۔ سرگودھا میں کینووں کی اس خراب پروڈکشن سے نہ تو کسی ریسرچ سینٹر والے کو تکلیف ہے اور نہ ہی زراعت کے کسی محکمے کو۔ تکلیف ہوتی تو نتیجہ یوں تباہی کی شکل میں نہ نکلتا۔
مسئلہ صرف سٹرس کا ہی نہیں۔ مجموعی طور پر ریسرچ کا برا حال ہے۔ پاکستان کے ریسرچ انسٹیٹیوٹ خدمات سر انجام نہیں دے پا رہے، ان کے پاس بجٹ ہے نہ نظام۔ ایسا کوئی ماحول نہیں کہ پاکستانی سائنسدان نتائج دے سکیں۔ کئی بابے ریسرچ انسٹیٹیوٹس میں سانپ بن کے بیٹھے ہیں جن کی پوری کوشش ہے کہ کوئی خود کو ان سے بہترثابت نہ کر دے۔ ریسرچرز کو تو چھوڑیے یہاں تو یونیورسٹیوں کی لیبارٹریز میں بنیادی کیمیکلز تک نہیں۔ ایم فل، پی ایچ ڈی کے طلبہ کے پاس دو راستے ہوتے ہیں، افورڈ کرتے ہیں تو سامان جیب سے خرید لیں ورنہ، کتابوں کے چند مضامین کی ورق گردانی کے بعد پیپرز دے کے تین اعشاریہ پانچ جی پی اے حاصل کر لیں اور بس۔
حکومت سے گذارش یہ ہے کہ ڈالر صرف ٹیکسٹائل کے ایکسپورٹرز پاکستان نہیں لاتے، ڈالر صرف کھیلوں کا سامان بنانے والے ہی نہیں لاتے بلکہ کینو، آلو، مکئی اور کپاس کے ایکسپورٹر بھی ڈالر پاکستان لا سکتے ہیں۔ اس شعبے سے جڑے افراد پاکستان کی جی ڈی پی کے بیس فیصد کو سپورٹ کرتے ہیں۔ باسٹھ فیصد مزدور بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر زراعت سے جڑے ہوئے ہیں۔
مگر یہاں آر اینڈ ڈی یعنی ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ نام کی کوئی چیز نہیں۔ گندم کی فی ایکڑ پیداوار کو کیسے بڑھانا ہے، کپاس کی پیداوار میں اضافہ کیسے کرنا ہے، کینو کے باغات سے صحت مند اور برآمد کیے جانے کے قابل کینو کیسے حاصل کرنے ہیں، اس جانب حکومت کی کوئی توجہ نہیں۔ اسرائیل، سائوتھ کوریا، جرمنی، سویڈن، امریکہ، آسٹریا اور کئی دوسرے ممالک اربوں ڈالر سالانہ ریسرچ پہ خرچ کرتے ہیں، ان کے یہ پیسے ضائع نہیں ہوتے بلکہ دگنے چگنے ہو کر واپس آتے ہیں۔ حکومت پاکستان بھی اگر ریسرچ پہ تھوڑے پیسے خرچ کر لے، کینو کے ریسرچ سینٹر کو فعال کر دے، سیڈ لیس بریڈ پہ کام ہو جائے، نئی اور جدید بریڈز سرگودھا میں لگ جائیں تو کچھ عرصے میں ریسرچ پر لگنے والے یہ پیسے ایکسپورٹس کے عوض ڈالرز کا روپ دھار کر واپس پاکستان آ جائیں گے، ورنہ جو نتیجہ نکلنے والا ہے وہ تو نوشتۂ دیوار ہے ہی۔