لڑائیاں صرف تحریک انصاف میں ہی نہیں ہو رہی ہیں، بلکہ سینیٹ ٹکٹس کے معاملے پر ن لیگ میں بھی کھینچا تانی اور مارا ماری جاری ہے۔ اگرچہ گذشتہ روز مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے احتساب عدالت کے جج امجد نذیر چودھری سے اجازت لے کر کمرہ عدالت میں ہی سینیٹ کی ٹکٹوں پر دستخط کر دیے لیکن اس کے بعد بھی ہر کوئی اپنے اپنے طریقے سے خود کو سینیٹر بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ جس کے پاس ووٹوں کی مطلوبہ تعداد پوری نہیں ہے وہ بھی کوشش میں لگا ہے اور کوورنگ امیدوار بھی اصل کو پچھاڑ کر جیتنے کی کوشش میں ہے۔ اپنے ذرائع سے حاصل کچھ معلومات پیش خدمت ہیں۔
میرے ذرائع کا کہنا ہے کہ سیف الملوک کھوکھر پارٹی کو یقین دہانی کرا رہے ہیں کہ تحریک انصاف کے 35 ایم پی ایز ان کی جیب میں ہیں لہذا وہ یہ چاہتے ہیں کہ ن لیگ انہیں کاغذات نامزدگی واپس لینے کا نہ کہے اور الیکشن لڑنے دے۔ ان کا دعوی ہے کہ وہ ن لیگ کی اپنی متوقع سیٹیوں کے بعدایک اضافی سیٹ تحریک انصاف کے کھاتے سے نکال لیں گے۔ لہذا سیف الملوک کھوکھر پارٹی قیادت سے صرف یہ چاہتے ہیں کہ انہیں الیکشن لڑنے دیا جائے۔ اب وہ تحریک انصاف کے 35ایم پی ایز کا ضمیر کیسے جگائیں گے وہی بہتر جانتے ہیں۔ ویسے خریدار کے پاس پیسوں کی کمی ہے نہ بازار میں خریدار کم ہوتے ہیں۔ لیکن پھر بھی 35ایم پی ایز ایک ساتھ خرید لینا مشکل سا کام لگتا ہے۔
پنجاب میں ایک لڑائی اور بھی جاری ہے، زاہد حامد، اعظم نذیر تارڑ کی جگہ سینیٹر بننے کے لیے بضد ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اعظم نذیر تارڑ کی بجائے انہیں سینیٹ کا ٹکٹ دیا جائے۔ جبکہ اعظم نذیر تارڑ پہلے ہی سینیٹر کی فہرست میں اپنا نام شامل کرانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ اب جب زاہد حامد نے بچوں کی طرح "رپھڑ" ڈال لیا تو پارٹی قیادت نے ان سے کہا چلیں کاغذات نامزدگی توجمع کرائیں پھر دیکھتے ہیں۔ گذشتہ روز احتساب عدالت کے کمرہ نمبر 5 میں شہباز شریف نے زاہد حامد کے ٹکٹ پر بھی دستخط کیے تو اعظم نذیر تارڑ میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی۔ اب دونوں اپنا اپنا زور لگا رہے ہیں کہ سینیٹ کا انتخاب انہیں لڑایا جائے۔ دیکھیے اب کیا ہوتا ہے۔
پنجاب کے بعد چلیں خیبر پختونخواہ کا رخ کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ میں ن لیگ نے عباس آفریدی کو ٹکٹ جاری کیا ہے۔ عباس آفریدی کو سینیٹر بننے کے لیے کم از کم اٹھارہ ووٹوں کی ضرورت ہے۔ جبکہ ان کے پاس ووٹوں کی تعداد صرف چھ ہے۔ اب عباس آفریدی چاہتے ہیں کہ انہیں پیپلز پارٹی کے5 ایم پی ایزبھی ووٹ دیں تو وہ جیت کے قریب جا سکتے ہیں۔ اس کے لیے دو دن پہلے ان کے والد شمیم آفریدی اور بھائی امجد آفریدی نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ شمیم آفریدی پہلے ہی آزاد حیثیت میں سینیٹر ہیں اور ان کے بھائی امجد آفریدی آزاد حیثیت میں ایم پی اے ہیں۔ اس سیاسی چال کے ذریعے عباس آفریدی پیپلز پارٹی کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں اور پی ڈی ایم کا فورم بروئے کار لانے کی بھی کوشش کر رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عباس آفریدی پیپلز پارٹی کے ووٹ حاصل کر کے بھی صرف۱۱ ووٹوں تک پہنچ پارہے ہوں گے باقی کے ووٹ انہیں پھر بھی بازار سے خریدنا ہی پڑیں گے دوسرے لفظوں میں دوسری پارٹی کے سات امیدواروں کا ضمیر جگانا ہو گا۔ شاید کم لوگ جانتے ہوں گے کہ کھوکھر فیملی اور عباس آفریدی کے بچوں کی آپس میں شادیاں ہونے کے باعث یہ رشتے دار بھی ہیں۔ ویسے تو عباس آفریدی کے پاس خود بھی بہت روپیہ ہے مزید ضرورت پڑی تو کھوکھر برادران سے لے سکتے ہیں۔
اب اس ساری کہانی میں خبر یہ ہے کہ ن لیگ کے رانا تنویر اور ایاز صادق عباس آفریدی کو یوں کھُل کھیلنے دینے کی شدید مخالفت کر رہے ہیں، ان کا خیال ہے کہ اس طرح نظریاتی کارکنوں کی حوصلہ شکنی ہو گی اور پارٹی میں پھوٹ پڑجائے گی۔ لیکن امر واقع یہ ہے کہ سینئر لیڈرشپ کی مخالفت کے باوجود عباس آفریدی کو ٹکٹ جاری کیا گیا ہے اور اپنے منصوبے کے مطابق وہ پورا زور لگا رہے ہیں۔
میں پچھلے ہفتے کے کالم میں منظر کشی کر چکا ہوں کہ کس طرح سینیٹ میں ٹکٹ کے امیدوار احتساب عدالت میں شہباز شریف کے گرد منڈلا تے رہے اور مسلسل عدالتوں کے چکر کاٹتے رہے۔ سینیٹ کا معاملہ نمٹا توایک اور کہانی شروع ہو گئی۔ کراچی میں جیسے ہی فیصل وائوڈا کا حلقہ ان کے سینیٹ میں جانے کے باعث خالی ہونے کی امید پیدا ہوئی ہے کراچی کے اس حلقے سے ٹکٹ کے امیدواروں نے احتساب عدالت کا رخ کر لیا ہے۔ 2018 کے انتخابات میں اس حلقے سے شہباز شریف نے فیصل وا ئوڈا سے انتخاب تقریبا جیت ہی لیا تھا، وہ صرف700 ووٹوں سے ہارے تھے۔ ن لیگ اب بھی سمجھتی ہے کہ فیصل وائوڈا کو دھاندلی سے جتوایا گیا۔ اب یہ حلقہ خالی ہو رہا ہے تو بہت سوں کا خیال ہے کہ بلدیہ کے اس حلقے میں ن لیگ کی اچھی خاصی سپورٹ ہونے کی وجہ سے سیٹ نکالی جا سکتی ہے۔ ایک تو یہاں شہباز شریف نے بڑی تعداد میں ووٹ لیے تھے، دوسرا اب فیصل وائوڈا جیساچیلنج بھی نہیں ہو گا یوں پارٹی کے کئی لوگوں کے لیے یہ حلقہ کافی پرکشش حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ لہذا کراچی کے اس حلقے سے قومی اسمبلی کا ٹکٹ لینے کے لئے گذشتہ روز کئی افراد کمرہ عدالت میں شہباز شریف کے گرد منڈلاتے نظر آئے۔ ان میں ایک صالحین تنولی تھے جو شہباز شریف کے نیچے صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑ چکے ہیں دوسرے خواجہ غلام شعیب تھے، یہ بھی اسی حلقے سے ایم پی اے کا الیکشن لڑ چکے ہیں۔ ان دونوں کے علاوہ کمرہ عدالت میں کراچی ہی سے قادر پٹیل سے ایم این اے کا الیکشن ہارنے والے سلمان خان بھی موجود تھے لیکن ان کا کہنا تھا کہ وہ ٹکٹ کے لیے نہیں آئے۔ پارٹی کے کچھ لوگوں سے میری بات ہوئی ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف مفتاح اسمٰعیل کو یہاں سے الیکشن لڑانا چاہتے ہیں جن کا تعلق اس حلقے سے نہیں ہے۔ اب د یکھیے ٹکٹ حاصل کرنے والا خوش نصیب کون ہوتا ہے۔