سیاست ممکنات کا کھیل ہے، یہ پہلی بار منتخب ہونے والے کسی گمنام شخص کو سب سے بڑے صوبے کا طاقتور ترین حکمران بنا سکتا ہے اور کبھی محض دس نشستیں رکھنے والی پارٹی کے سربراہ کو کرسی اقتدار پہ براجمان کرا سکتا ہے۔ حیرت نہ ہوگی اگر فضل الرحمن آنے والے دنوں میں صدر پاکستان بن جائیں۔
پرویز الٰہی کو وزیر اعلی کا امیدوار بناکر عمران خان نے ایک ایسی سیاسی چال چلی ہے جس سے انہیں صرف پنجاب ہی نہیں وفاق میں بھی فائدہ ہو گا۔ پرویز الہی جانتے ہیں کہ اگر وفاق میں تحریک انصاف کا اقتدار نہ بچا تو پنجاب میں وزارت اعلی کا اعلان بے معنی ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی وزارت اعلی کی خاطر وفاق میں تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لیے سرگرم ہو گئے ہیں۔ گویا پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے۔
اب ایک طرف پرویز الٰہی بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنمائوں کو منانے کے لیے سرگرم ہیں، دوسری طرف ایم کیوایم کو قائل کر رہے ہیں اور تیسری جانب ن لیگ کے حلقوں میں دراڑیں تلاش کرنے میں لگے ہیں کہ اگر وہاں سے بھی دو چار ایم این اے ہاتھ لگ جائیں تو حالات قابو میں آ نے کے امکانات پیدا ہو جائیں گے۔
چودھری برادران کے اندر یہ سیاسی صلاحیت بھی موجود ہے کہ وہ جہانگیر ترین اور علیم خان کے ساتھ بہتر انداز میں بات چیت کر سکیں اور موجودہ حالات میں انہیں تحریک انصاف کے لیے نقصان دہ ثابت ہونے سے روک سکیں۔
اس وقت نمبرز گیم کافی دلچسپ ہے۔ شاہ زین بگٹی سمیت اپوزیشن کے 161 اراکین نے تحریک عدم اعتماد پیش کی ہے۔ اگر ان میں اسلم بھوتانی، ق لیگ کے طارق بشیر چیمہ اور بلوچستان عوامی پارٹی کے چار اراکین کو شامل کر لیں تو تعداد 167ہو جاتی ہے۔ اگر طارق بشیر چیمہ کو چودھری پرویز الٰہی منانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جیسا کہ توقع ہے اور دوسری طرف بلوچستان پارٹی کے دو ارکان واپس آ جاتے ہیں تو اپوزیشن کے پاس تعداد پھر 164 رہ جائے گی۔
ایسے میں ایم کیو ایم کافی اہمیت اختیار کر جاتی ہے۔ خبریں ہیں کہ ایم کیو ایم کو سندھ کی گورنر شپ اور بحری امور کی وزارت دی جا رہی ہے۔ ایم کیو ایم اگر حکومت کے ساتھ آ گئی تو اپوزیشن کی آخری امید منحرف اراکین رہ جائیں گے۔ منحرف اراکین ابھی کشمکش کا شکار ہیں۔ ایک طرف انہیں یہ خوف ہے کہ سپریم کورٹ سے پانچ سال یا اس سے زیادہ کی نااہلی کا فیصلہ آ گیا تو کیرئیر ڈوب جائے گا۔ دوسری طرف انہیں یہ ڈر بھی ہے کہ اگرا سپیکر نے ان کے ووٹ کو شمار نہ کیا تو کیا حاصل ہو گا۔
اگر حکومت کے اتحادی تحریک عدم اعتماد میں اپوزیشن کا ساتھ نہیں دیتے اور اپوزیشن منحرف اراکین کی مدد سے ہی حکومت کو گھر بھیجتی ہے تو ایک پیچیدہ مسئلہ اور بھی سر اٹھائے گا۔ منحرف اراکین کے ڈی سیٹ ہونے کے بعد اپوزیشن کے پاس اپنی حکومت بنانے کے لیے ایوان میں 172 لوگ پورے نہیں بچیں گے۔ یوں پھر ایک مرتبہ سیاسی بحران پیدا ہو جائے گا۔ ادھر عمران خان نے بھی یہ تہیہ کر رکھا ہے کہ اگر انہیں نکالا گیا تو سڑکوں پر نکل آئیں گے اور شہر شہر نگر نگر اپنی شہادت کا چرچا کریں گے۔
مولانا فضل الرحمن تو شاید شیروانی پہن کر ایوان صدر میں جا بیٹھیں گے لیکن نظام حکومت چل نہیں پائے گا۔ غیر یقینی کی صورتحال نے پہلے ہی سٹاک مارکیٹ تباہ کر دی ہے۔ اگر عمران خان کی حکومت بچ جاتی ہے اور عوام کو یقین دلا دیا جاتا ہے کہ اب اگلے ڈیڑھ سال کچھ نہیں ہو گا تو شاید بازار کا اعتماد دوبارہ بحال کیا جا سکے۔ لیکن اگر لوگوں کو لگا کہ عمران خان کو نکال کر 9جماعتوں پر مشتمل ایک مکس حکومت بنائی جا رہی ہے جسے کوئی بھی نہ گرائے تو بھی آپس میں لڑ لڑ کے ایک دوسرے کا جینا دوبھر کر دیں گے۔ ایسے میں سرمایہ کار کا اعتماد کیسے بحال کیا جائے گا، مارکیٹ کیسے چلے گی اور کب تک ایسی صورتحال موجود رہے گی۔
ایک طرف سیاست ہر پل رنگ بدل رہی ہے۔ دوسری طرف عمران خان ایک خطرناک راستے پر نکل چکے ہیں۔ عالمی طاقتوں کو سر عام للکار کے انہوں نے اپنے کئی دشمن پیدا کر لیے ہیں۔ عالمی طاقتیں تیسری دنیا کے ممالک میں اپنی مرضی کا حکمران لگانے کو ایک سستا کھیل سمجھتی ہیں، ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ نے 1960 سے 2000تک تیسری دنیا کے ممالک میں حکومتیں تبدیل کرنے کی 58 کامیاب کوششیں کیں۔ ابتداء میں وزیر اعظم عمران خان نے صحافیوں سے ہونے والی ملاقاتوں میں دوہرا دوہرا کر کہا کہ انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ انہیں اقتدار سے نکالنا چاہتی ہے۔ بعد ازاں وہ سازشوں پر مبنی خط جلسے میں لے آئے تو معاملہ سنگین ہو گیا۔
جلسے میں عمران خان کی جانب سے لہرائے جانے والے خط سے بہت سے سوالوں نے جنم لیا۔ یہ خط کیا کسی دوست ملک کی انٹیلی جنس ایجنسی کی طرف سے آگاہ کرنے کے لیے لکھا گیا، یعنی کسی دوسرے ملک نے عمران خان کی فیور میں انٹیلی جنس شیئرنگ کی؟ کیا یہ خط براہ راست دھمکی تھی جو کسی دوسرے ملک کی طرف سے تحریری طور پر دی گئی ہو۔ کیا اس خط کے مندرجات سے پاکستان کے سکیورٹی ادارے آگاہ تھے یا عمران خان نے جلسے میں بتایا تو ان کے علم میں آیا۔
عمران خان یہ خط جلسے میں کیوں لے آئے۔ جب خط دکھانا ہی نہیں تھا تو لہرایا کیوں گیا۔ عالمی طاقتوں کو کیا پیغام ملا۔ عمران خان نے اپنے لیے مزید کتنا خطرہ مول لیا ہے۔ عمران خان کی فارن پالیسی سے کیا پاکستان کے ادارے بھی مطمئن ہیں، کیا دونوں ایک پیج پر ہیں۔ کیا خارجہ پالیسی کو جلسوں میں لے آنا عمران خان کا پہلا حربہ تھا یا آخری۔ بہت سے سوال ہیں جن کے جوابات شاید آئندہ دنوں میں ہمارے سامنے آئیں گے جب تہہ در تہہ پرتیں کھلیں گی۔