میرے لیے الیکشن کمیشن کا فیصلہ غیر متوقع تھا۔ الیکشن کمیشن کے کمرہ عدالت میں دونوں جانب کے دلائل سننے کے بعد میرا اور کئی دوسرے لوگوں کا خیال تھا کہ 20 پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ پولنگ کا حکم دیے جانے کے امکانات زیادہ ہیں مگر فیصلہ سنایا گیا تو خود نوشین افتخار سمیت ن لیگ کے کئی لوگ ورطۂ حیرت میں گم تھے۔
یہ فیصلہ غیر متوقع کیوں تھایعنی ہماری توقع مختلف کیوں تھی۔ دلائل میں ایسی کیا بات تھی کہ ضمنی انتخابات کالعدم قراردے دیے جانے کا امکان بہت کم دکھائی دیتا تھا۔ یہ سب تجزیہ دونوں جانب سے دیے جانے والے دلائل کو سامنے رکھ کے ہی کیا جا سکتا ہے لہذا سلمان اکرم راجہ اور بیرسٹر علی ظفر کے جانب سے دیے گئے موٹے موٹے دلائل میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں تا کہ پڑھنے والوں کو خود بھی تجزیہ کرنے میں آسانی ہو۔
سلمان اکرم راجہ کی ایک دلیل یہ تھی کہ جب 20 پریزائیڈنگ آفیسرز کچھ گھنٹے غائب رہ کرلوٹے تو ریٹرنگ آفیسر کے مطابق وہ خوفزدہ دکھائی دیتے تھے۔ اس دلیل کے جواب میں بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ یہ صرف پرریٹرنگ آفیسر کا قیاس تھا، کسی بھی پریزائیڈنگ آفیسرنے یہ بیان نہیں دیا کہ اسے اغوا کیا گیا، یرغمال بنایا گیا، تشدد کیا گیا یا زبردستی نتائج تبدیل کروائے گئے۔ علی ظفر کا خیال تھا کہ جب ایسا بیان کسی کی طرف سے نہیں آیا تو ریٹرنگ آفیسر کے محض قیاس کی بنیاد پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ دھاندلی ہوئی ہے۔
سلمان راجہ نے ایک اور دلیل بار بار دی کہ حلقے میں فائرنگ کے واقعات ہونے کی وجہ سے بڑے پیمانے پر خوف و ہراس پھیلا جس کی وجہ سے لوگ ووٹ ڈالنے نہ نکلے۔ ان کا کہنا تھاچونکہ انتظامیہ پُرامن ماحول مہیا نہیں کر سکی اس لیے پورے حلقے میں دوبارہ انتخابات کرائے جائیں۔ اس پر بیرسٹر علی ظفر کا موقف خاصا جاندار دکھائی دیتا تھا۔ انہوں نے کہا اگر خوف ہراس پھیل چکا تھاتو ڈھائی لاکھ ووٹ کیسے کاسٹ ہو گئے۔ دوسری دلیل ان کی یہ تھی کہ محض فائرنگ کے واقعے کو بنیاد بنا کر اگرپورے حلقے میں دوبارہ الیکشن کرایا گیا تو مستقبل میں یہ ایک حوالہ بن جائے گا، ہر فائرنگ کے نتیجے میں دوبارہ الیکشن کراناپڑا کرے گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک ہارتا ہوا شخص خود فائرنگ کرا کے الیکشن کمیشن سے نتائج کو کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کرنے لگے۔
سلمان اکرم راجہ کی تیسری دلیل یہ تھی کہ اس حلقے کے کئی پولنگ اسٹیشنز پر ٹرن آئوٹ صرف اٹھارہ فیصد کے قریب ہے، کچھ میں یہ اڑتالیس پچاس فیصد جبکہ کچھ پولنگ اسٹیشنز پہ بیاسی فیصد بھی سامنے آیا ہے۔ اتنا بڑا فرق ظاہر کرتا ہے کہ کچھ پولنگ اسٹیشنز پہ دھاندلی ہوئی ہے۔ بیرسٹر علی ظفر کا اس پہ کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے پاس ایسا کوئی قانون موجود نہیں ہے جو مختلف پولنگ اسٹیشنز کے ٹرن آئوٹ کے فرق کو دھاندلی سے تعبیر کرے۔ انہوں نے کہا اس سلسلے میں ملتا جلتا صرف ایک قانون ہے کہ اگر کہیں خواتین کی ایک مخصوص تعدادووٹ ڈالنے نہ آئے تو ووٹنگ دوبارہ ہو گی اس کے علاوہ کوئی قدغن نہیں۔
چوتھی دلیل سلمان اکرم راجہ کی یہ تھی کہ 20 پولنگ اسٹیشنز کے نتائج دیر سے پہنچے لہذا یہاں پر دھاندلی ہوئی۔ بیرسٹر علی ظفر کا موقف تھا کہ دیر سے پہنچنا دھاندلی کو ثابت نہیں کرتا۔ دلیل انہوں نے یہ دی کہ بیس میں سے چھ پولنگ اسٹیشنز ایسے ہیں جہاں پریزائیڈنگ آفیسرز کا فارم 45 ن لیگ کے فارم 45 سے میچ کرتا ہے حالانکہ تاخیر وہاں بھی ہوئی۔ یوں ان کا کہنا تھا کہ تاخیر اور دھاندلی کا آپس میں تعلق نہیں جوڑا جا سکتا۔ علی اسجد ملہی نے اسی دلیل کے ساتھ کھڑے ہو کر ایک سوال کیا کہ جو پولنگ اسٹیشن ریٹرنگ آفیسر کے دفتر سے محض پانچ سو گز کے فاصلے پر تھا اس کا نتیجہ رات پونے دو بجے کیوں پہنچا، وہاں ن لیگ جیتی تو کیا میں کہوں کہ وہاں بھی دھاندلی ہوئی؟
بیرسٹر علی ظفر کا کمیشن کے سامنے یہ بھی کہنا تھا کہ ن لیگ نے 337 پولنگ اسٹیشنز کے نتائج کو درست تسلیم کر لیا ہے اور صرف 23 پر اعتراض اٹھایا ہے، جب 337 نتائج کو تسلیم کر لیا ہے تو پھر پورے حلقے میں دوبارہ انتخاب کامطالبہ کیوں۔ کمیشن نے بھی سلمان راجہ سے سوال کیا کہ ان سب پولنگ اسٹیشنز پر تو آپ جیت گئے ہیں پھر دوبارہ الیکشن کیوں چاہتے ہیں۔ اس پر انہوں نے کمیشن سے کہا کہ ہم جیت تو گئے ہیں مگر بہت کم مارجن سے جیتے ہیں۔ پی ٹی آئی والوں کی یہی حکمت عملی تھی کہ ان علاقوں میں ہماری جیت کے مارجن کو کم کیا جائے تاکہ یہ اپنے علاقوں سے لیڈ بنا لیں لہذا یہ ایک بہت بڑی سازش تھی۔ لیکن واضح رہے کہ سلمان راجہ اس سازش کو ثابت کرنے کے لیے ثبوت نہیں دے پائے تھے۔
بیرسٹر علی ظفر کے ان تمام دلائل کی روشنی میں محسوس ہوتا تھا کہ سلمان راجہ اور ن لیگ کے پاس 20 پولنگ اسٹیشنز میں دھاندلی یا بے ضابطگی ثابت کرنے کے لیے تو کچھ نہ کچھ زبانی شواہدیا دلائل تو موجود ہیں لیکن پورے حلقے میں دوبارہ الیکشن کرانے کے لیے دلائل موجود نہیں سوائے اس کے کہ فائرنگ کے واقعات کی وجہ سے خوف و ہراس پھیلا اور لوگ گھروں سے نہیں نکلے حالانکہ ڈھائی لاکھ ووٹ اس دلیل کی نفی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ الیکشن کمیشن کے ممبران کے ذہن میں یہ پہلو ہو کہ اگر الیکشن کو قبول کر لیا گیا تو آئندہ الیکشن عملے کا غائب ہونا، نتائج کا دیر سے پہنچنا اور ضلعی اور صوبائی انتظامیہ کا تعاون نہ کرنا معمول نہ بن جائے۔ ہو سکتا ہے الیکشن کمیشن ممبران نے آئندہ انتخابات میں ان قباحتوں سے بچنے کے لیے یہ فیصلہ کیا ہو لیکن بہر حال یہ ایک سخت فیصلہ تھا اوردیے گئے دلائل کی روشنی میں کم از کم میرے لیے تو غیر متوقع بھی تھا۔