حیرت ہے یہ لوگ یہاں رہتے کیوں ہیں؟ ہجرت کیوں نہیں کر لیتے؟ شہر کے قریب کیوں نہیں چلے جاتے؟ مگر شاید وہی منطق ان کے پاس ہو گی کہ ابائواجداد کی مٹی کو کیسے چھوڑ دیں، تو بھلا آبائو اجداد کیا سوچ کر یہاں آباد ہوئے ہوں گے؟
تھرپارکر جانے کا اتفاق تو چار پانچ مرتبہ ہوا ہے، چولستان کے کئی حصے بھی چندبار دیکھ رکھے ہیں مگر صحرائے نارا اپنے اندر انفرادیت کی بے شمار جہتیں سموئے ہوئے تھا۔ ریت، گرمی اور پیاس کے سوا یہاں کچھ دکھائی دیتا ہے نہ سجھائی دیتا ہے۔ سانپ اوربچھو اس کثرت سے پائے جاتے ہیں کہ کیا آستینوں میں ہوں گے۔ ریت کے طوفان یوں معمول ہیں کہ جیسے ساحلِ سمندر پہ روزانہ ہوا چلتی ہے۔ ریت، ریت اور بس ریت۔ رات کے کھانے کے دوران ایک روز ونگ کمانڈر خرم سے میں نے پوچھا کہ کھانے میں بھی ریت؟ ہر نوالے میں کرک محسوس ہوتی ہے، مسکرا کے کہنے لگے بس دو دن تک ہوتی ہے، اس کے بعد نہیں ہوتی۔
فاصلہ یہاں بڑا عذاب ہے اور سہولیات کا نہ ہونا دوہرا عذاب۔ گھنٹوں ریت میں سفر کیجئے، اونٹ پر یا پیدل۔ تب جا کر دس بارہ گھروں کا ایک گائوں یا گوٹھ نظر آئے گا۔ گاڑیاں یہاں دیہاتیوں کو عام دستیاب نہیں۔ عام طور پر ایک گائوں کے پاس ایک گاڑی ہے جو شہر سے راشن لانے، مریضوں کو چار گھنٹے کی مسافت پر موجود اسپتال پہنچانے اور خوشی غمی میں دوسرے گوٹھ تک پہنچنے سمیت دیگر کاموں کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ اگر گاڑی کسی ایک کام سے شہر گئی ہو تو مریض کے پاس ایمرجینسی میں اسپتال پہنچے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ سٹرک جیسی کوئی چیز ان صحرائی گوٹھوں میں موجود نہیں لہذا عام گاڑیاں تو ویسے بھی استعمال نہیں ہو سکتی۔ تھرپارکر کے شہر مٹھی کے قرب جوار میں بسنے والے دیہاتوں کے لیے تو ریت پر سفر کرنے والی ایک خاص طرح کی بس چلتی ہے جسے مقامی زبان میں "کیکڑا" کہتے ہیں مگر یہاں نہیں۔ چند گھروں کے لیے یہاں کیکڑا کون چلائے گا، اس کا خرچ کون اٹھائے گا۔ یہاں تو دیہاتیوں نے پیسے ملا کر پرانے ماڈل کی ایک ایک جیپ خرید رکھی ہے۔ زندگی معمول کے مطابق چلتی رہے تو ایک گائوں سے ایک گاڑی ہفتے میں ایک بار ہی شہر جاتی ہے، ہفتے بھر کا ضروری سامان لے آتی ہے اور زندگی ہفتے بھر کے لیے پھر ساقط ہو جاتی ہے۔
تھرپارکر پر تو کچھ سال سے میڈیا کی نظر ہے، یہاں میٹھے پانی اور خوراک کی کمی کا رونا ہم ہمیشہ روتے رہے۔ خود کئی بار کیمرہ اٹھا کر میں تھرپارکر گیا اور دیکھا کہ لوگ یہاں تین سو سال پیچھے بستے ہیں بلکہ کچھ حوالوں سے تو ہزاروں سال پہلے کا موہنجو داڑو آج کے تھرپارکر سے زیادہ جدید تھا۔ مگر صحرائے نارا جانے کے بعد محسوس ہوا کہ مِٹھی تو یہاں کے مقابلے میں پیرس سے کم نہیں۔ حیرت ہے یہ لوگ یہاں رہتے کیوں ہیں؟ ہجرت کیوں نہیں کر لیتے؟ شہر کے قریب کیوں نہیں چلے جاتے؟ ریت میں ہی رہنا ہے تو تھرپارکر چلے جائیں۔ کرنا کیا ہے، اپنے اونٹ، مال مویشی، بچے اور تھوڑا بہت سامان ہی تو اٹھانا ہے، گھروندا تو وہاں جا کر پھر کھڑا ہو جائے گا، پینے کو پانی تو ملے گا، بیماری میں دوا تو ملے گی۔ مگر شاید وہی منطق ان کے پاس ہو گی کہ ابائواجداد کی مٹی کو کیسے چھوڑ دیں، تو بھلا آبائو اجداد کیا سوچ کر یہاں آباد ہوئے ہوں گے؟ پانی ہے نہ سبزہ، ہرے بھرے کھیت ہیں نہ خوراک کی فراوانی۔ سوچتا ہوں مل جائے تو یہاں آ کر آباد ہونے والے پہلے شخص سے انٹرویوکروں کہ بھائی کیا سوچ کر یہاں آئے تھے؟ تب تو یہاں نارا کینال بھی نہیں تھی، اب تو پھر بھی کچھ علاقے نارا کینال سے جی اُٹھے ہیں مگر وہ نہیں جن کا میں ذکر کر رہا ہوں۔
رینجرز کے جوانوں کی مجبوری تو سمجھ میں آتی ہے، زمین کے چپے چپے کی حفاظت انہیں کرنی ہے، ریت، گرمی، پیاس، سانپوں اور بچھوئوں سے انہیں لڑنا ہے، اس عزم کے ساتھ کے اپنے حصے کی ریت کا ایک ذرہ بھی وہ کسی کو نہ دیں گے۔ شکر ہے صحرائے نارا کو دیکھ کر کسی نے یہ نہیں کہہ دیا کہ یہاں پوسٹیں بنا کر کیا کرنا ہے یہاں تو گھاس بھی نہیں اگتی۔ عرفان جمیل صاحب کا شعر یاد آتا ہے
یہ کس رستے پر آ نکلے ہر اک مو ڑ، ہر ایک ڈگر
گھپ اندھیرے، ٹوٹی قبریں، کانٹے، کنکر، ٹیلے، سانپ
تھرپارکر میں بھی ایسا ہی ہے، مٹھی شہر میں بھی آپ کو یہی تجربہ ہو گا کہ غسل خانے میں شاور اگر موجود بھی ہو تو بھی آپ نہانے کے لیے استعمال میں نہیں لا سکتے، بلکہ پانی بالٹی میں بھر کے بھی نہیں نہا سکتے، صبح میں نہانا ہے تو رات کو بالٹی بھر کے رکھنی پڑے گی اور رات میں واپس آ کے نہانا ہے تو صبح میں بالٹی بھر کے جائیے، ورنہ ٹینکی کا پانی اس قدر گرم ہوتا ہے کہ جھلسا دے۔ بارڈر پر ڈیوٹی کرنے والے جوانوں کے ماضی کے تجربات تو آپ سنتے جائیے اور انگلیاں چباتے جائیے۔
اس صحرائی سفر میں میری ملاقات سرحد پرذمہ داریاں ادا کرتے کئی جوانوں سے ہوئی، فوجی گاڑی میں جب یہ ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچتے ہیں تو بھنوئیں اورپلکیں تک ریت سے اَٹ چکی ہوتی ہیں، داڑھی اور مونچھوں کی کیفیت کیا ہو گی۔ گلگت سے آئے ایک جوان کو میں نے دو دن تک مسلسل ہنستے مسکراتے ہوئے پایا تو پوچھ ہی لیا کہ کہاں ٹھنڈے علاقے میں اُٹھان اور اب کہاں صحرا کی گرمی۔ مسکراہٹ ایک بار پھر چہرے پر کھیل گئی، معصومیت سے کہنے لگا عادت ہو گئی ہے۔
دیہاتیوں اور فوجی جوانوں سے ملاقات کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا، اصل چیزمٹی ہے۔ یہ مٹی سے نسبت ہے جو دیہاتیوں کو ہجرت نہیں کرنے دیتی اور یہ مٹی سے محبت ہے جو گلگت اور گوادر کے جوانوں کونارا کی ریت میں لیے پھرتی ہے۔