شہباز شریف چند سوالوں کا جواب دے کر جان چھڑا کیو ں نہیں لیتے۔ سادہ سے کچھ سوال ہیں۔ انہی بس یہ بتانا ہے کہ ان کے ڈائریکٹر برائے سیاسی امور نثار احمد گل کی گڈ نیچر کمپنی پرائیویٹ لیمیٹڈ سے اپریل 2017 میں باری باری 16.3 ملین، پھر 47 لاکھ اور پھر ایک کروڑ روپے شہباز شریف کے اکاونٹ میں کیوں منتقل ہوئے۔ شہباز شریف کو بس یہ بتانا ہے کہ فضل داد عباسی ان کی اہلیہ محترمہ تہمینہ درانی کو پہنچائی جانے والی رقم گڈ نیچر کمپنی سے کیوں حاصل کیا کرتا تھا۔ انہیں بس یہ بتانا ہے کہ مقصود اینڈ کمپنی کا مالک ملک مقصود جس کے ساتھ سلمان شہباز کاروبار کیا کرتے تھے 55-Kماڈل ٹائون میں چپڑاسی کی حیثیت سے کام کیوں کرتا تھا۔ انہیں بس یہ وضاحت کرنی ہے کہ تہمینہ درانی کے لیےWhispering Pines کے دو ولاز، ولانمبر 19 اور کاٹیج نمبر 23 خریدنے کے لیے پیسے آپ کے ایک ملازم نثار گل کی گڈنیچر کمپنی سے کیوں ادا ہوئے۔ انہیں بس یہ بتانا ہے کہ حمزہ شہباز کی بینک اسٹیٹمنٹ میں دیکھے جانے والے 25ملین روپے جو 28 اکتوبر 2016کو مسرور انور نامی کیش بوائے نے ان کے اکائونٹ میں جمع کرائے وہ آپ کے ملازم نثار گل کی کمپنی سے کیوں نکلوائے گئے تھے۔ سوال یہ ہے کہ شہباز شریف ان سوالوں کے جواب دے کر اپنی جان چھڑا کیوں نہیں لیتے؟
شہباز شریف بتا کیوں نہیں دیتے کہ گڈ نیچر نامی ایک پرائیویٹ کمپنی جس کاان سے کوئی تعلق نہیں، کو ایک نجی بینک سے 900 ملین روپے کا قرضہ دلوانے کے لیے رمضان شوگر مل نے بینک گارنٹی کیوں دی۔ وہ بتا کیوں نہیں دیتے کہ بینک سے900ملین کا قرضہ تو گڈنیچر نے حاصل کیا مگر وہ رقم شریف خاندان کے پرانے ملازم شعیب قمر اور منصور انور نے تین قسطوں میں کیوں نکلوا لی اور وہ رقم 96-H اور 55-Kماڈل ٹائون کیوں پہنچ گئی۔ وہ بتاکیوں نہیں دیتے کہ اظہر اقبال، قاسم قیوم، طاہر نقوی، مسرور انور، فضل داد عباسی، محبوب علی، منظور احمداور شعیب قمر جو ان کی کمپنیوں میں معمولی تنخواہ پر ملازم تھے، اربوں روپے کی ترسیل کس کے لیے کرتے تھے۔ اگر شہباز شریف ان سوالوں کے نیب کو جواب دے دیں تو وہ قانون کی عمل داری کر کے بطور شہری بھی سرخرو ہو جائیں گے اور انہیں سیاسی طور پر بھی فائدہ ہو گا، حیرت ہے شہباز شریف ان سوالوں کا جواب کیوں نہیں دیتے۔
کچھ اورسوال بھی ہیں جن کا جواب شہباز شریف کو دینا ہے۔ شہباز شریف کو بتانا ہے کہ شریف فیڈ مل کے اٹھارہ ہزار روپے ماہوارکے ملازم راشد کرامت عرف کرامت مسیح کے اکائونٹ میں 450ملین کیوں جمع کرائے گئے جو بعد ازاں نکلوا لیے گئے۔ انہیں جواب دینا ہے کہ راشد کرامت کی کمپنی نثار ٹریڈنگ پرائیویٹ لمیٹڈ میں اربوں روپے کی بیس سے زیادہ ٹرانزیکشنز کیوں کروائی گئیں۔ بڑے بڑے سرکاری ٹھیکیداراور ریل اسٹیٹ ڈویلپرز اس اکائونٹ میں وہ پیسے کیوں بھیجتے رہے جو بعد میں شریف خاندان اپنے ملازمین کے ذریعے نکال کر استعمال میں لاتا رہا۔ شہباز شریف کو بتانا ہے کہ رمضان شوگر مل کے ملازم اظہر عباس کے نام پر بے نامی اکائونٹ میں 350 ملین کیسے جمع ہوئے۔ انہیں جواب دینا ہے کہ رمضان شوگر مل کے ایک اور ملازم محمد انور کے نام پر بنائے گئے اکائونٹ میں 880 ملین کیوں جمع کرائے گئے اور یہ رقم شریف خاندان نے کیوں استعمال کی۔ انہیں بتانا ہے کہ چنیوٹ پاور کے ملاز م اقرار حسن کے جعلی اکائونٹ میں 640ملین کہاں سے آئے۔ انہیں یہ بھی بتانا ہے کہ رمضان شوگر ملز کے ملازمین غلام شبیر اور تنویر الحق کے اکائونٹس میں بالترتیب 560 ملین اور 210 ملین کیوں اور کہاں سے آئے۔ انہیں اس سوال کا بھی جواب دینا ہے کہ 17.4 ارب روپے کی غیر قانونی رقم منی لانڈرنگ کے لیے کیوں استعمال کی گئی۔ مگر نہ جانے کیوں وہ ان سوالوں کا جواب نہیں دے رہے۔
شہباز شریف نیب میں نہ پیش ہونے کے لیے کورونا کا عذر پیش کر رہے ہیں جہاں ان کے لیے صفائی ستھرائی کا خاص اہتمام کیا گیا تھا۔ لیکن کارکنوں کے ہجوم کے ساتھ عدالت میں پیش ہو گئے جہاں ان کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ممکن ہی نہیں تھا۔ صاف نظر آتا ہے کہ شہباز شریف ان سوالوں کا جواب دینے سے کترا رہے ہیں جو نیب ان سے پوچھنا چاہتی ہے۔
شہباز شریف کے منی لانڈرنگ اور اثاثوں سے زائد آمدن کے کیس کو باریک بینی سے دیکھنے والوں کا خیال ہے کہ ان کے خلاف نیب کے پاس اتنے ثبوت موجود ہیں جتنے نواز شریف اور آصف زرداری کے خلاف بھی نہیں تھے۔ ان کا خیال ہے کہ شہباز شریف کی تمام بینکنگ ٹرانزیکشنز پکڑی جا چکی ہیں، منی لانڈرنگ کا نیٹ ورک بے نقاب ہو چکا ہے۔ پیسے بھیجنے والے، اور فرنٹ مینوں کے پوری کھیپ سامنے آچکی ہے۔ وہ بھی قبول کر چکے ہیں جو کک بیکس کا پیسہ بھیجا کرتے تھے اور وہ بھی مان چکے ہیں جو غیر قانونی رقوم کی ترسیل کا کام کرتے تھے۔ اٹھارہ ہزار روپے ماہانہ تنخواہ لینے والے ملازمین کا تمام ڈیٹا بھی نیب کو دستیاب ہو چکا ہے اور ان کے جعلی اکائونٹس کا تمام ریکارڈ بھی۔ قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ ایسے میں شہباز شریف کے لیے کوئی راہ فرار نہیں بچی۔ وہ اپنے کیس کو التوا میں ڈالنے کی کوشش تو کر سکتے ہیں اسے جھوٹا ثابت نہیں کر سکتے۔ شہباز شریف اپنے وکلا کی رائے کی روشنی میں تاخیری حربوں پر گامزن ہیں۔ گرفتاری سے بچنے کے لیے وہ جو کر سکتے ہیں کر رہے ہیں اب دیکھیے وہ کتنا عرصہ اپنی گرفتاری کو ٹال سکتے ہیں۔
نواز شریف پہلے ہی ملک سے باہر ہیں اور مریم خاموش، حمزہ اندر ہیں اور سلمان شہباز پاکستان آ نہیں سکتے۔ ایسے میں اگر شہباز شریف گرفتار ہو گئے تو پارٹی کی بقا سخت مشکل میں پڑ جائے گی۔ دوسرے درجے کی قیادت پہلے ہی دو حصوں میں بٹ چکی ہے۔ پارٹی کا مستقبل شہباز شریف کی قیادت سے جڑا ہے۔ انیس جون کے بعد دیکھتے ہیں کیا ہوتاہے۔