لاہور چھوڑنا ہرگز آسان فیصلہ نہ تھا۔ اس فیصلے کی مشکلات کو وہی شخص جان سکتا ہے جو لاہور میں پیدا ہوا ہو، چالیس سال زندہ دلوں کے شہر میں کامیابی سے گزارے ہوں۔ ہزاروں کی تعداد میں تعلق دار اور چاہنے والے بنائے ہوں۔ دوست، رشتہ دار اور عزیز و اقارب قیمتی اثاثے کی طرح چاروں طرف بستے ہوں، لاہور آپ کے رگ وپے میں سرایت کر چکا ہو اور آپ نشے کی طرح روح میں اترے اس شہر کو دیوانوں کے مانند خیر باد کہہ دیں۔ یہ ہرگز آسان فیصلہ نہ تھا۔ یہ فیصلہ کسی سے یا تو عشق کرا سکتا ہے یا پھر عشق جیسا جنون۔
چالیس سالہ زندگی میں یہ میرا دوسرا مشکل فیصلہ تھا۔ دونوں بار شوق صحافت نے انگلی پکڑ کر یہ دریا عبور کرایا۔ پہلی بارایسا ہی ایک مشکل فیصلہ میں نے2006 میں لیا تھا۔ چھ سال تک آئی ٹی کی تعلیم حاصل کرتا رہا اور پھر نیٹ ورکس میں اسپیشلائزیشن کرنے کے بعد LUMS یونیورسٹی کے شعبہ آئی ٹی سے منسلک ہو گیا۔ 8 سال کی محنت کے بعد جب اس شعبے میں اپنا ہدف پا لیا تو بے چینی نے آن گھیرا۔ غالب کا شعر بار بار دھیان میں آتا تھا۔ فکر دنیا میں سر کھپاتا ہوں، میں کہاں اور یہ وبال کہاں۔
کئی مہینے تک رات دن سوچتا رہا اور ایک دن سیدھا گارڈن ٹائون میں واقع ایک ٹیلی ویژن کے دفتر جا پہنچا جو لاہور سے اپنی نشریات کا آغاز کرنے والا تھا۔ شام چار بجے وہاں جا کر میں نے بطور نیوز اینکر آڈیشن دینے کی خواہش کا اظہار کیا۔ متعلقہ فرد سے میری ملاقات رات آٹھ بجے تک نہ ہو پائی اور جب ملاقات ہوئی تو آڈیشن لینے کے بعد محض 15منٹ میں انہوں نے مجھے اپنی اسکرین پر خبریں پڑھنے کی پیش کش کر دی۔
میں خوشی سے پھولا نہ سماتاتھا مگر یہ خوشی کچھ دیر کی مہمان ثابت ہوئی جب پتہ چلا کہ مجھے آئی ٹی کے شعبے سے ملنے والی تنخواہ سے آدھی سے بھی کم تنخواہ میں یہ پیش کش کی جا رہی ہے۔ میں کچھ پریشان تو ہوا مگر ساری عمر اس پچھتاوے کی ساتھ زندگی نہیں گزار سکتا تھا کہ مجھے شعبہ صحافت میں کام کرنے کا موقع مل رہا تھا اور میں نے محض آدھی تنخواہ کے نقصان کی وجہ سے یہ پیش کش ٹھکرا دی تھی۔ میں نے یہ آفر قبول کر لی اور اسی روز اپنے ادارے کو استعفی بھجوا دیا۔
یہ مشکل فیصلہ لینے کے بعد گھر پہنچا تو ایک طوفان میرا منتظر تھا۔ میرے گھر والوں نے ایک ایک پائی جوڑ کر مجھے آئی ٹی کی مہنگی تعلیم دلائی تھی۔ اُس زمانے میں اس شعبے میں کام کرنے والے نوجوان خاصا پیسہ کماتے اور خوب عروج پاتے تھے۔ اس کے مقابلے میں صحافت ایسا شعبہ تھا خوشحالی جس کے پاس سے بھی نہ گزری تھی۔ صحافی اس زمانے میں ایک غریب طبقہ سمجھے جاتے تھے جو پریس کلبز میں جا کر سستا کھانا کھایا کرتے، ایک دوسرے سے لفٹ مانگ کر سفر کیا کرتے اور نہایت کسمپرسی کے عالم میں زندگی گزارتے۔ محض اپنے شوق کی خاطر میں ایک ایسے شعبے کا انتخاب کر رہا تھا جہاں مستقبل کا روشن ہونا یقینی نہ تھا۔ لیکن ایک یقین تھا کہ زندگی کا لطف اپنی مرضی کا کام کر کے ہی آئے گا نا کہ دن بھر کمپیوٹر اسکرین پر بیٹھ کے۔
تب بھی شاید یہ فیصلہ اتنا مشکل نہ تھا کہ نوجوانی میں دلیری ہمراہ ہوتی ہے، جذبہ اور جنون بھی جوان ہوتا ہے، خود اعتمادی بھی میسر ہوتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کئی طرح کے واہمے گھیر لیتے ہیں، کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ویسا نہ ہو جائے۔ بڑا قدم اٹھاتے ہوئے طرح طرح کے خیال آتے ہیں۔ بچوں کی تعلیم کا خیال، رشتہ داروں اور دوستوں کا خیال، محنت سے بنائے ہوئے اپنے گھر کا خیال، پردیس کا انجانا خوف اور سب سے بڑھ کر مستقبل میں ممکنہ پچھتاوے کا ڈر کہ اگر تجربہ ناکام ہو گیا تو کیا ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ پہلا فیصلہ لینے میں مجھے تین مہینے لگے تھے اور اس بار تین سال۔ وقفے وقفے سے ہجرت کا خیال دل میں آتا رہا مگر اسے انتہائی مشکل عمل جان کر میں ٹالتا رہا۔
پچھلے چھ ماہ میں لاہور کے جن دوستوں کے ساتھ یہ آئیڈیا ڈسکس کیا وہ چونک جاتے، "لاہور چھوڑ دو گے؟" حیرت کے بھرپور تاثرات کے ساتھ پہلا سوال یہی ہوتا۔ "اسلام آباد میں دل نہیں لگے گا" پہلے سوال کے فورا بعد فیصلہ سنا دیا جاتا۔ میں انہیں قائل کرتا "صحافت کا مزہ اسلام آباد میں ہے، جابجا بیش قیمت سٹوریز بکھری پڑی ہیں، ذرا سی محنت کے خوگر شخص نے وہاں بڑا نام بنایا ہے، میں بھی قسمت آزمانا چاہتا ہوں "۔ یہ سب کہہ کر میں دوستوں کو قائل کرنے کے ساتھ ساتھ خود کو بھی اس مشکل فیصلے کے لیے تیار کرتا رہا۔ بہت سے دوستوں نے کہا جانا ہی ہے تو گھر بیچ کر مت جائو، ہو سکتا ہے دل نہ لگے اور واپس آ جائو۔ میں یہ مشورے ماننے کے لیے خود کو تیار نہ کر سکا اور کشتیاں جلا کرپچھلے ہفتے بچوں کے ہمراہ اسلام آباد پہنچ گیا۔
لاہور یاد آئے گا، دوست یاد آئیں گے، دوستوں کے ساتھ میرے گھر کی چھت پر گزری شامیں اور راتیں یاد آئیں گی جب سردیوں کی ہر شام آگ کا الائو روشن رہتا تھا، انگیٹھی پر سیخیں چڑھا دی جاتیں اور تازہ گرم روٹیوں کے لیے تندور دہکنے لگتا تھا۔ دوستوں کے قہقہے رات گئے تک فضا کی خاموشی میں مخل ہوتے رہتے۔ کسی وجہ سے اگر چند دن کا وقفہ آ جاتا تو ہمسائے راہ میں روک کر پوچھتے اسد بھائی کچھ دن سے آپ کے ہاں غزل نائٹ کا اہتمام نہیں ہوا، سب خیریت تو ہے؟ اور میں مسکرا کر کہتا، کام کے سلسلے میں کچھ روز سے اسلام آباد میں تھا۔
اسلام آباد کے دوستوں نے بھی بہت کشادہ دلی کے ساتھ خوش آمدید کہا ہے۔ مگر کیا یہ شہر میرے لیے لاہور کا متبادل بنے گا، یہ تو وقت یہ بتائے گا۔ سنا اور پڑھا ہے کہ آگے بڑھنے کی خواہش رکھنے والوں کو اپنے "کمفرٹ زون " سے نکلنا پڑتا ہے، مشکل فیصلے کرنے پڑتے ہیں، چیلنجز کو قبول کرنا پڑتا ہے، یہ بھی سنا ہے کہ ہجرت میں برکت ہے۔ لہذا فیصلہ درست ثابت ہوا تو کیا کہنے، مگر درست ثابت نہ بھی ہوا تو کوئی ملال نہیں رہے گاکہ کوشش کردیکھنا بھی تو ضروری تھا۔ ایک بات مگر دونوں صورتوں میں مشترک ہو گی کہ لاہور یاد ضرور آئے گا۔