Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Siasat Ke Mozuaat Badalne Ki Zaroorat Hai

Siasat Ke Mozuaat Badalne Ki Zaroorat Hai

پاکستان کی سیاست آجکل آڈیو ویڈیو لیکس کے گرد گھوم رہی ہے۔ مریم نواز کی آڈیو کے سوا کچھ بھی یہاں مصدقہ نہیں لیکن سنجیدگی دیکھئے کہ غیر مصدقہ لیکس پر سیاست ہو رہی ہے۔ مریم نواز اپنی پارٹی کے چھ سینئر ترین رہنمائوں کے ساتھ بیٹھ کر پریس کانفرنس میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی اُس آڈیو کی بنیاد پر اپنا کیس کھڑا کرنے کی کوشش کر رہی تھیں، جس کی تصدیق ہونا باقی ہے۔ ایک صحافی کی طرف سے پہلے کرایا گیا فارانزک یہ نہیں بتاتا کہ اس آواز کے کتنے ٹکڑوں کو جوڑ کر ایک آڈیو بنائی گئی ہے۔ لیکن سیاست اس کے باوجود زور و شور سے جاری ہے۔

حیرت کی بات ہے رانا شمیم کا بیان حلفی اور آڈیو کا مواد ابھی تک اسلام آباد ہائیکورٹ میں چلنے والے کیس کے ریکارڈ کا حصہ بنانے کی کوئی درخواست دائر نہیں کی گئی لیکن یوں معلوم ہوتا ہے مریم نواز اور ن لیگ نے اس سے قانونی کی بجائے صرف سیاسی فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے تبھی ان لیکس کو صرف پریس کانفرنسز اور ٹاک شوزتک محدود رکھا گیا ہے۔

آڈیو ویڈیو لیک کرنے کا کلچر ہماری سیاست میں زیادہ پرانا نہیں۔ اگرچہ شہباز شریف اور جسٹس قیوم کی ٹیلی فون کال کی ریکارڈنگ ماضی میں خوب گردش میں رہی ہیں مگر آڈیو ویڈیوزلیکس کا نیا باب جج ارشد ملک کی باضابطہ طور پر پریس کانفرنس میں جاری ہونے والی ویڈیو کے بعد کھلا۔ پھر مزید ویڈیوز اور آڈیوز کے جاری ہونے کی دھمکیاں تنبیہ کے طور پر سیاست کا موضوع بنائی گئیں۔ کہاجاتا رہا اور بھی ویڈیوز ہیں، کہا جاتا رہا ویڈیوز کبھی نہیں مرتیں۔ ویڈیوز کے جواب میں پھر ویڈیوز کا سلسلہ شروع ہوا۔ کبھی محمد زبیر لپیٹ میں آئے تو کبھی کوئی اور۔ ویڈیوزکی سیاست باضابطہ طور پر مریم نے ہی شروع کی۔ دیکھئے یہ سلسلہ کہاں تک چلتا ہے۔

آڈیوز کے اس ہنگام میں صرف ایک آڈیو کی تصدیق ہو پائی ہے اور وہ مریم نواز کی اپنی آواز ہے جس میں وہ حکومت کی مرضی کے خلاف چلنے والے چند چینلز کے اشتہارات بند کرنے کا حکم نامہ صادر کر رہی ہیں اور پھر پورے دھڑلے سے کہتی ہیں، ہاں یہ میری آواز ہے۔ مریم نواز نے پریس کانفرنس میں اعتراف تو کر لیا لیکن کیا وہ بتانا پسند کریں گی کہ کس حیثیت میں وہ احکامات صادر کر رہی تھیں۔ سرکاری پیسوں کے استعمال کے لیے حکم جاری کرنے کے لیے ان کے پاس کونسا اختیار تھا جس کا استعمال کیا گیا۔ کیا وہ بتانا پسند کریں گی اشتہارات کے ذریعے میڈیا پر دبائو ڈالنے کا اخلاقی اور قانونی جواز کیا تھا ان کے پاس؟ میڈیا کو کنٹرول کرنے کی اس بدترین پالیسی کا اس دھڑلے سے اعترا ف حیران کن ہی نہیں افسوسناک بھی ہے۔ ابھی دو ہی دن پہلے ان کے والد محترم لاہور میں ہونے والی کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے میڈیا کی آزادی پر گفتگو کر رہے تھے۔ بڑے درد کے ساتھ انہوں نے فرمایا تھا " افسوس مخالف سوچ رکھنے والے صحافیوں پر قدغنیں لگائی جا رہی ہیں، ان کے کالم چھپنے سے روکے جا رہے ہیں، میڈیا کی آزادی سلب کی جا رہی ہے"وغیرہ وغیرہ۔ لیکن میڈیا کو اشتہارات کے ذریعے کنٹرول کرنے کی بدترین پالیسی پر وہ کیا رائے دیں گے؟ پھر تو سلام ہے ان چینلز کوجنہوں نے سرکاری اشتہارات ٹھکرا دیے لیکن حکومت کی آواز بننے سے انکار کرتے ہوئے آزادی کے ساتھ اپنا صحافتی سفر جاری رکھا۔

آڈیوز کے اس منظر نامے میں پارٹی کے صدر شہباز شریف کہاں ہیں۔ کیا انہیں اس پر تشویش ہے کہ چیزیں غلط سمت میں جا رہی ہیں؟ سنجیدہ سیاست کا رجحان پہلے ہی یہاں ختم ہو چکا ہے۔ عدالت میں چلنے والے کیسز کو متنازعہ بنانے کے لیے ایسے بیان حلفی گھڑے جا رہے ہیں جس کے مواد کو سچ ثابت کرنا تقریباناممکن ہے۔ غیر مصدقہ آڈیو پر پریس کانفرنسز ہو رہی ہیں، ٹاک شوز ہو رہے ہیں۔ سیاست ایسی ڈگر پر چل رہی ہے جس میں سنجیدگی، خلوص اور ملک و قوم کی بہتری کے عناصر تک موجود نہیں۔ اس سے بھی زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ دو اشخاص کی سیاست کو فائدہ پہنچانے کے لیے پوری کی پوری پارٹی اور اس کے سینئر رہنما قومی ایشوز کو چھوڑ کر نان ایشوز میں الجھے ہیں اور اپنے اپنے لیے امکانات کا سامان کر رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ن لیگ کی طرف سے سیاسی طور پر مچایا گیا یہ "گھڑمس" مریم نواز اور نواز شریف کو عدالتوں میں کیا فائدہ پہنچائے گا؟ بیان حلفی ہو یا ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو، جب تک یہ چیزیں عدالتی ریکارڈ کا حصہ نہیں بنیں گی، کیس پر کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ دوسری جانب فضل الرحمن جھنجھلاہٹ کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے وہ روز بروز اپنے ہدف سے دور جا رہے ہیں۔ مہنگائی کو موضوع بنا کر لانگ مارچ کے نتیجے میں حکومت پر دبائوبڑھا کر اسے گھر بھیجنے کا خواب بکھرتا جا رہا ہے۔ جہاں مولانا کا لانگ مارچ موضوع ہونا چاہیے تھا وہاں مریم کا کیس اورایک مبینہ آڈیو موضوع بحث بنی ہوئی ہے جس سے مولانا کو کوئی سروکار نہیں۔ صرف مولانا کو ہی نہیں، آڈیو ویڈیو کے کھیل سے عوام کو بھی کوئی سروکار نہیں۔ لوگ مہنگائی سے پریشان ہیں، پیٹرول نہ ملنے کے عذاب میں مبتلا ہیں۔ ایسے میں انہیں کسی کی آڈیو سے کیا لینا دینا۔

سیاست میں موضوعات ترتیب دینے کی ضرورت ہے، ایسے موضوعات جو ملک و قوم کے مفاد میں زیر بحث لائے جائیں، جن پر گفتگو تعمیرکی غرض سے کی جائے، جس کا مقصد اپنے اسکور میں اضافہ نہیں بلکہ عوام کے مفاد کے لیے ہو۔ سیاست کو آڈیو ویڈیو سے باہر نکال کر نظام درست کرنے جیسے موضوعات پر بحث چھڑنے کی ضرورت ہے۔