سوسائٹی کریش کر گئی ہے۔ بنیادی انسانی قدریں عنقا ہو گئی ہیں۔ پچھلے پچاس سال میں ہم نے ایک نسل نہیں ریوڑ تیار کیا ہے۔ صرف ریوڑ بھی ہوتا تو غنیمت تھی، وحشی اور درندہ صفتوں کا ریوڑ ہماری بستیوں پر قابض ہے۔
یا ہماری بستیاں ہی جنگلوں کے جیسی ہیں
یا ہمارے اندر کوئی جانور سا رہتا ہے
اس سوسائٹی میں کیا کچھ نہیں ہو چکا ہے۔ سندھ میں اندھی ڈالفن مچھلی کا ریپ کرنے والی قوم، پنجاب کے دیہاتوں میں باڑے میں بندھے جانوروں سے اپنی ہوس کی پیاس بجھانے والی قوم اور تازہ قبروں میں دفن ہونے والی مُردہ جوان لڑکیوں کو قبر سے نکال کر ان کا ریپ کرنے والی قوم کے نفسیاتی علاج کے لیے ہم نے کیا کیا ہے؟ معاشرے لاء اینڈ آرڈر کے ساتھ ساتھ اخلاقی قدروں کی ترویج سے پروان چڑھتے ہیں اور کئی مغربی معاشرے اسی بنیاد پر پروان چڑھے ہیں۔ زینب کے قاتل کو پھانسی پہ چڑھاتے ہوئے بھی بہت سے لوگوں کو یقین تھا کہ ایسے واقعات دوبارہ ہوں گے کیونکہ صرف عمران کو پھانسی پہ چڑھایا گیا تھا عمران کی سوچ کو پھانسی پہ نہیں چڑھایا گیا۔ سو بچوں کا قتل، بھتے کے لیے تین سو افراد کا زندہ جلا دیا جانا، گونگی اور معذور لڑکیوں کا ریپ، بیٹے کی جانب سے بوڑھی ماں پر تشدد، اس سوسائٹی کی تباہی میں بچا کیا ہے؟
ڈاکٹر عنبرین صلاح الدین نے اسی درد کا اظہار اپنی نظم "بے حیا عورتیں " میں کیا ہے:
کیسے مردوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بناکر
گلے کو دبا کر
تعفن اگلتے ہوئے گندے نالوں میں لڑھکاتی،
یادور کھیتوں میں اور کوڑے دانوں میں پھینک آتی ہیں
سنگ دل سارے منظر کو اک آن میں بھول کر آگے بڑھ جاتی ہیں
بے حیا عورتیں
فاحشہ عورتیں
ان کی رالیں ٹپکتی ہیں
معصوم جسموں کو گر دیکھ لیں
مرد، عورت ہویا کوئی خواجہ سرا
اپنی وحشت کی تسکین کے واسطے
عمر، رنگت، قبیلے یا طبقے کا کچھ مسئلہ ہی نہیں
جان سے مار دینا بھی مشکل نہیں
بلکہ قبروں میں تازہ دبی لاشوں کو نوچنے میں انہیں ہچکچاہٹ نہیں
یہ بلا عورتیں
منبروں پہ کھڑی
برتری کے مناروں سے مردوں پہ پھنکارتی
زعم میں مبتلا عورتیں
خود کو کیسے برابر سمجھتے ہیں؟ ۔۔۔
کیا؟ عورتوں کے برابر؟
خدا ان کو بخشے۔۔۔
کہ یہ عورتوں کے تو پیروں کی جوتی برابر نہیں
عقل ٹخنوں میں ہے
اور سب جانتے ہیں
قیا مت کے دن یہ جہنم بھریں گے
مگر یہ نہیں جانتے
عورتوں کے تخیل کی جنت میں اٹکھیلیاں کر رہے ہیں
بہتّرحسیں، کسرتی جسم کے اونچے لمبے جواں
جن کے ملبوس سے ان کے جسموں کی رگ رگ دھڑکتی نظر آتی ہے!
اوراس انعام پرخود پہ اتراتی ہیں
کج ادا عورتیں
باحیا، پارسا، باصفا مردہیں
اور ان کی مجازی خدا عورتیں!
چالیس پچاس سال پہلے کے لکھے افسانوں اور ناولوں میں ہم پڑھا کر تے تھے کہ لٹیرے لوٹ مار کرتے ہوئے بھی بنیادی انسانی قدروں کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ چوری کے لیے آیا چور ارادہ ترک کر کے مظلوم کی مدد کرنے لگتا تھا۔ کئی افسانوں میں ہم نے پڑھا کہ اغوا کاروں کے سرغنہ نے سختی سے ہدایات جاری کر رکھی تھیں کہ مغویوں کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ خدا کی بستی میں شوکت صدیقی نے لکھا کہ ایک جیب کترے نے دوسرے کے علاقے میں جیب کاٹی تو مخالف گروپ کے سرغنہ کے شکایت کرنے پر جیب کترے کے استاد نے اپنے شاگرد کی جیب سے پیسے نکال کر شکایت کرنے والے کو تھما دیے اور اپنے شاگرد کو سمجھایا کہ کسی دوسرے کے علاقے سے لوٹے گئے پیسوں پر ہمارا حق نہیں بنتا۔ جیون خان نے اپنی بائیو گرافی جیون دھارا میں لکھا کہ جب کوئی بھینس چور کامیابی سے کسی کی بھینس چوری کر کے اپنی جگہ تک لے جاتا تھا تو پکڑے جانے پر بھینس کا اصل مالک چور کو اس کی مشقت کا معاوضہ ادا کر کے اپنی بھینس واپس لے جاتا تھا۔ منٹو کے افسانے ٹھنڈا گوشت کا مرکزی کردار اسی وحشت، ندامت اور خوف سے نا مرد ہو گیا تھاکہ انجانے میں اس سے مردہ لڑکی کا ریپ سر زد ہوتے ہوتے رہ گیا تھا۔ یہ شاید تب کی سوسائٹی کا عکس تھاکہ جب آنکھ میں شرم ابھی باقی تھی اور آج کی سوسائٹی کا عکس ہمارے سامنے ہے۔ ستر سا ل میں ہم نے یہ کیسا معاشرہ تشکیل دیا ہے کہ جہاں انسان تو انسان جانوروں کی عزت اور زندگی بھی انسان کے ہاتھوں محفوظ نہیں۔ یہ شعر بچپن میں ہم اپنی تقریروں میں پڑھتے تھے، تب مبالغہ لگتا تھا، آج صحیح معلوم ہوتا ہے۔
بھاگتے کتے نے اپنے ساتھی کتے سے کہا
بھاگ ورنہ آدمی کی موت مار ا جائے گا
میں ایسی بہت سی پاکستانی فیمیلیز کو جانتا ہوں جو پچیس سال پہلے حصول رزق کی غرض سے بیرون ملک گئے اور وہاں کے ہو کے رہ گئے، وہیں ان کے بچوں کی پیدائش ہوئی۔ مگر آج جب ان کے بچے بالخصوص بیٹیاں بڑی ہو گئی ہیں تو وہ انہیں لے کر پاکستان شفٹ ہو گئے ہیں محض اس لیے کہ وہ اپنے بچوں کو غیر ملکی ماحول میں پروان نہیں چڑھانا چاہتے بلکہ پاکستان کے اسلامی اور مشرقی معاشرے میں پروان چڑھانا چاہتے ہیں۔ ہمارے ایک دوست علمدار حسین نے ایک شعر کہا تھا کہ:
نفرت ہی اس وطن میں غنیمت شمار کر
چاہت کی جستجو میں نگر چھوٹ جائے گا
ہم اس شعر کو اپنی تقریروں میں لہک لہک کر پڑھتے اور داد سمیٹے رہے۔ مگر اب سوچنے پہ مجبور ہیں کہ نفرت کو تو شاید غنیمت شمار کیا جا سکتا ہے، چلتی سڑک پر بچوں کے سامنے ریپ پر کیا کہیں؟ ؟