دوسری بار میں نے بے نظیر بھٹو کو اگلے دن دیکھا۔ کارساز پر دھماکہ ہوئے سولہ گھنٹے گزر چکے تھے جب وہ پریس کانفرنس کے لیے میڈیا کے سامنے آئیں۔ چہرے پر غم اور غصے کے ملے جلے جذبات صاف نظر آتے تھے۔ دھماکہ کرنے والوں نے ڈیڑھ سو سے زائد لوگوں کی جان لے کر پوری دنیا کے سامنے بے نظیر کی اہمیت اوران سے خوف کا اظہار کر دیا تھا۔ دھماکے میں بے نظیر کے لیے ایک پیغام بھی تھا۔ انہیں واضح طور پر بتا دیا گیا تھاکہ چپ چاپ گھر بیٹھ جائواورمخالف قوتوں کو چیلنج نہ کرو ورنہ نتائج اس سے زیادہ سخت ہو سکتے ہیں۔ بے نظیر میڈیا کے سامنے آئیں تو ڈر کے گھر بیٹھنے سے صاف انکار کر دیا۔ ان کے لہجے میں غم اور غصہ تو تھا ہی، ایک للکار بھی تھی۔ دھماکے کی آواز سے بھی بلند لہجے میں ان کی للکار نے دشمن کو مزید خوفزدہ کر دیا۔
یہ میری بے نظیر سے دو بدو پہلی ملاقات تھی۔ ان کا پہلا تاثر مجھ پر ایک بہادر، نڈر، حوصلہ مند اور پُرعزم شخصیت کے طور پر پڑا۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ دھماکے کے بعد وہ اپنی آمد و رفت محدود کر دیں گی، جلسے جلوسوں میں زیادہ محتاط ہو جائیں گی اور عوامی اجتماعات کی تعداد کو گھٹا دیں گی مگر یہ سب نہ ہوا۔ آنے والے دنوں میں ان کے لب ولہجے میں شدت آ گئی، خوف کا شکار ہونے کی بجائے وہ مزید نڈر ہو گئیں۔ ایسا لگتا تھا انہیں یقین ہے کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ ایسا لگتا تھا وہ سمجھتی ہیں کارساز کا دھماکہ صرف انہیں ڈرانے کے لیے کیا گیا تھا، حقیقت میں کوئی ان کی جان نہیں لے گا۔ یا یہ بھی ہو سکتا ہے وہ اپنی جان کو لاحق خطرات کے حقائق سے واقف ہوں مگر گھر بیٹھ جانے کو اپنے لیے آپشن نہ سمجھتی ہوں۔ شاید یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اپنی سرگرمیاں تیز کر دیں۔
تیسری بار میں نے بے نظیر بھٹو کو اسلام آباد میں صحافیوں کے دھرنے میں دیکھا جہاں وہ میڈیا پر لگائی جانے والی پابندیوں کے خلاف صحافیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے اچانک پہنچی تھیں۔ 3 نومبر 2007 کو پرویز مشرف نے ملک بھر میں ایمرجنسی لگا دی جسے انہوں نے بعد میں خود ایمرجنسی پلس کا نام دیاتھا۔ پرویز مشرف نے میڈیا پر پابندیاں عائد کر کے ایک چینل کی نشریات بند کرا دیں اور باقی چینلز پر بھی سخت قسم کی اعلانیہ اور غیر اعلانیہ قدغنیں لگا دیں۔ ان پابندیوں کے بعد پاکستان بھر میں صحافی تنظیمیں سراپا احتجاج تھیں۔
اسلام آباد میں ایک کیمپ لگا دیا گیا تھا، روزانہ صحافی وہاں جمع ہوتے اور پرویز مشرف کی فوجی حکومت کے خلاف نعرے بازی کرتے۔ میں بھی ان دنوں اسلام آباد چلا گیا اور صحافیوں کے اس احتجاج میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگا۔ ایک روز کیمپ میں اچانک خبر موصول ہوئی کہ بے نظیر صحافیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے یہاں آ رہی ہیں۔ کارساز کے واقعے کو ابھی زیادہ دن نہ گزرے تھے۔ مجھے حیرت ہوئی کہ بے نظیر بغیر پیشگی سکیورٹی انتظامات کے کیسے یہاں آنے والی ہیں جبکہ ان کی زندگی کو لاحق خطرات کا واضح اظہاربھی ہو چکا ہے۔ چند ہی منٹ میں ہٹو بچو کا شور بلند ہوا اور بے نظیر بھٹو گاڑی سے جلوہ گر ہوئیں۔
وہ سیدھی صحافیوں کے احتجاجی کیمپ میں آئیں اور پرویز مشرف کی پالیسیوں کے خلاف بلند آواز اور سخت لہجے میں زوردار تقریر کر ڈالی۔ انہوں نے میڈیا سے یکجہتی کا اظہار کیااور چند ہی منٹ میں رخصت ہو گئیں۔ بے نظیر کے لب و لہجے اور سیاسی سرگرمیوں کی منصوبہ بندی میں خوف کا عنصر تک نہ تھا۔ صاف معلوم ہوتا وہ جو کہہ رہی ہیں اس پہ یقین رکھتی ہیں۔ شاید ان کے اسی اعتماد نے ان کے مخالفین کو یقین دلا دیا تھا کہ وہ اس بار باقی سب کے لیے خطرہ بن کے آئی ہیں اور یہ کہ یا تو وہ رہیں گی یا پھر ان کے مخالفین۔
27 دسمبر 2007 کی ایک اداس شام بے نظیر بھٹو کی توانا آواز کو خاموش کر دیا گیا۔ وہ جو انہیں مستقبل کے سیاسی منظر نامے پر نہیں دیکھنا چاہتے تھے، وہ جو ان کی سوچ سے خوفزدہ تھے، وہ جو اپنے لیے راستے ہموار دیکھنا چاہتے تھے، وہ جو بے نظیر کو رکاوٹ سمجھتے تھے، وہ جو بی بی کے لہجے میں لچک نہ ہونے سے ڈر گئے تھے۔ ان سب نے مل کر بے نظیر کی آواز کو خاموش کرا دیا۔
میں اکثر سوچتا ہوں بے نظیر بھٹوآج زندہ ہوتیں تو کیا ہوتا، 2008 کے انتخابات کا نتیجہ کیا نکلتا، وہ حکومت بناتیں تو ملک کو کیسے چلاتیں، کون کون ان کے راج میں راج کرتے اور کن کن کی دکانیں بند ہو جاتیں۔ آصف زرداری کا کردار کیا ہوتا؟ بلاول کو کیا ذمہ داریاں تفویض ہوتیں۔ پیپلز پارٹی کا طرز سیاست آج سے کتنا مختلف ہوتا؟ نواز شریف بے نظیر کی مخالفت میں کیسے سیاست کر رہے ہوتے۔
بے نظیر کے فوج کے ساتھ تعلقات کیسے ہوتے؟ بے نظیر اپنی حکومت میں خارجہ پالیسی کیسے بناتیں اور چلاتیں؟ ان کی موجودگی میں تحریک انصاف حکومت بنانے میں کامیاب ہو پاتی یا نہیں، اگر آج پی ٹی آئی کی حکومت ہوتی تو بے نظیر بھٹو کس حکمت عملی کے ساتھ اپوزیشن کر رہی ہوتیں۔ بہت سے سوال میرے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے سب جوابات میرے خیالی جوابات ہیں، میرے واہمے ہیں، میری ذہنی اختراع ہیں، حالات نہ جانے کیسے ہوتے، سیاست نہ جانے کس شکل کی ہوتی۔ لیکن ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہے بے نظیر کی موجودگی میں سیاسی قوتوں کا وزن زیادہ ہوتا، ان کی آواز تومعتبر ہوتی، سیاست کے ادارے کا قد کاٹھ مزید بڑا ہوتا اور ان کی بات کو آج کی پیپلز پارٹی سے زیادہ اہمیت دی جا رہی ہوتی۔
خدا بے نظیر بھٹو کو کرو ٹ کروٹ جنت نصیب کرے