جناب خورشید ندیم"جمہوری کلچر کی تشکیل" کے موضوع پر محو گفتگو تھے۔ اپنے مخصوص دھیمے اور مدبرانہ انداز میں فصاحت کے ساتھ انہوں نے پہلے معاشرے کی تعریف کی، پھر ریاست کی، پھر کلچر کی، پھر جمہوریت کی اور پھر جمہوری کلچر کی۔ اپنے مخصوص دلنشین انداز میں انہوں نے سمجھایا کہ ریاست کا ادارہ کیوں وجود میں آیا، قوانین کی ضرورت کیوں پڑی، انسان قوانین کے تابع کیوں ہیں اور یہ کہ جمہوری نظام اور ریاست اور جمہور کا آپس میں کیا تعلق ہوتا ہے۔ مختصر گفتگو کے بعد سوال وجواب کی نشست ہوئی تو بحث نے ایک اور رخ اختیار کر لیا، سوال اٹھا کہ ایک ناقص العلم اور ناقص العقل عام آدمی کو ووٹ کا اختیار دیا جانا چاہیے یا نہیں؟ کیا ایک ان پڑھ شخص میں اپنا رہنما چننے کی صلاحیت ہوتی ہے؟ کیا قوم کی تقدیر ایک ایسے ووٹر کے ہاتھ میں دی جا سکتی ہے جو جمہوریت کا مطلب سمجھتا ہے نہ ریاست کا، جو کلچر سے واقف ہے نہ جمہوری کلچر سے، جو صحیح کی پہچان رکھتا ہے نہ غلط کی، کیا اکیاون فیصد کے ہاتھ میں باقی انچاس فیصد لوگوں کو کھلونا بنایا جا سکتا ہے؟ اس بحث کے دوران یہ سوال بھی اٹھا کہ اگر ہر شخص کو ووٹ کا اختیار نہیں دیا جا سکتا تو پھر ووٹ کا اختیار رکھنے والے لوگوں کا انتخاب کس بنیاد پر کیا جائے۔ خوب بحث ہوئی مگر تشنگی باقی رہی اورکئی سوال ہوا میں معلق ہو کر رہ گئے۔ میں سوچتا ہوا محفل سے چلا آیا کہ ووٹ کا اختیار کسے حاصل ہونا چاہیے اور کسے نہیں؟
گاڑی میں بیٹھا تو ایک رپورٹ جو دودن سے گاڑی میں پڑی تھی مگر پڑھ نہ سکا تھا، پڑھنے کے لیے اٹھا لی۔ یہ ریسکیو ڈبل ون ڈبل ٹو کے ایمرجنسی کال نمبر پر موصول ہونے والی کالز سے متعلق رپورٹ تھی۔ لکھا تھا کہ ریسکیو ون ون ٹو ٹو کو پچھلے ایک سال کے دوران پاکستان بھرسے ایک کروڑ ترانوے لاکھ ایسی کالز موصول ہوئیں جن کا ایمرجنسی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ان میں ایک کروڑ تریسٹھ لاکھ کالز ایسی تھیں جنہیں نہایت ناپسندیدہ اور نامناسب قرار دیا جا سکتا ہے۔ جن میں بریانی بنانے کی ترکیب پوچھنے والی خواتین کی کالز بھی شامل تھیں اور فون کر کے بوریت ختم کرنے کی فرمائش کرنے والوں کی بھی، عید مبارک کہنے والوں کی کالز بھی تھیں اور پرینک کرنے والوں کی بھی، ان کالز میں پیزا ڈیلیور کرنے کی فرمائش بھی کی گئی تھی اور گھر کے دکھڑے سن لینے کی درخواست بھی۔ تھوڑا ہی دور جانے کے بعد محسوس ہوا کہ جیسے گاڑی کی ونڈ سکرین سے کوئی چیز ٹکرائی ہے اس اچانک " حملے " نے ڈرائیور کو چونکا دیا، گاڑی ذرا سے ہلی، ڈرائیوربُڑبُڑایا اورچند لمحوں میں رفتار پھر ہموار ہو گئی۔ پوچھنے پر معلوم ہوا آگے چلنے والی گاڑی سے کسی صاحب نے استعمال شدہ اشیا، پانی کی خالی بوتل، کینو کے چھلکے اور چپس کے ریپر لفافے میں بھرے اور کچرا گاڑی سے باہر پھینک دیا۔ شہر میں سفر کریں یا موٹرویز پر ایسا منظر ہر تھوڑی دیر بعد دیکھنے میں آتا ہے۔ ڈھونڈنے کی کوشش کی تو ڈیٹا کہیں سے نہ ملا کہ سال میں کتنے لوگ چلتی گاڑی سے کچرا دوسروں کے منہ پر دے مارتے ہیں۔ حساب کتاب لگایا کہ اگر پاکستا ن بھر میں روزانہ پچاس لاکھ گاڑیاں بھی سڑکوں پرآتی ہیں اور ان میں سے دو فیصد لوگ بھی ایسی حرکت کر رہے ہیں تو روزانہ ایک لاکھ لوگ اس کارنامے کے مرتکب ہو رہے ہیں اور یہ ایک سال کے ہوئے بارہ لاکھ لوگ۔ لہذا میری فورا رائے قائم ہوئی کہ ان بارہ لاکھ لوگوں کے پاس بھی ووٹ کا حق نہیں ہوناچاہیے جو شہریت کے بنیادی اصولوں سے واقف نہیں وہ حکمرانوں کا انتخاب کیسے کر سکتے ہیں۔
اتنی دیر میں میں کینال روڈ پر آگیا، شام کے چھ بجے تھے لوگ دفتروں سے لوٹ رہے تھے سڑکوں پر رش تھا، ہر کسی کو گھر پہنچنے کی جلدی تھی۔ ایسے میں ایک مریض کو لے جانے والی ایمبولینس چیختی دھاڑتی ہوئی آئی اور راستہ نہ ملنے پر گاڑیوں میں پھنس گئی۔ سائرن بجتا رہا اور لوگ گھر کا راستہ ڈھونڈتے رہے۔ زیادہ تر گاڑیوں نے اس ایمبولینس کو راستہ دینے کی کوشش تک نہ کی۔ کم از کم سو گاڑیاں تو ایسی ہوں گی جنہیں گھر پہنچنے کی ایمبولینس سے زیادہ جلدی تھی۔ میں نے سوچا ان سو گاڑیوں میں بیٹھے ہوئے تقریبا تین سو لوگوں کو بھی ووٹ ڈالنے کا حق نہیں ہونا چاہیے۔ اور روزانہ صبح اور شام کے اوقات میں اسی جرم کے مرتکب افراد کی فہرست بنا لی جائے تو سالانہ یہ تعداد بھی لاکھوں میں پہنچ جائے گی۔
میں آنکھیں بند کر کے اس مریض کے بارے میں سوچنے لگاکہ اگر یہ مرنے سے پہلے اسپتال پہنچ بھی گیا تو مارکیٹ میں جابجا بکھری جعلی دوائیاں اسے بچا نہیں سکیں گی۔ میرے ذہن میں گذشتہ برس کی وزارت صحت کی وہ رپورٹ گھومنے لگی جس کے مطابق کروڑوں روپے کی 226 ادویات بنانے والی 59 ادویہ ساز کمپنیاں سیل کر دی گئیں جو یقینا بعد میں کھول دی گئی ہوں گی۔ خیال آیا کہ وہ کون لوگ ہیں جو جان سے جاتے مریضوں کیلئے جعلی دوائیاں بناتے ہیں اور اپنے ہم وطنوں کیلئے موت خریدتے ہیں۔ سوچا کیا جعل سازی کرنے والوں کو ووٹ کا حق دیا جانا چاہیے۔ وہ جو جعلی کیچپ بناتے ہیں، جو بچوں کو دیے جانیوالے دودھ میں کیمیکلز ملاتے ہیں، جو بھینسوں کو انجکشن لگاتے ہیں، جو کھانے کی مرچوں اور مصالحہ جات میں برادے کی آمیزش کرتے ہیں۔ چند لاکھ ایسے لوگوں کو بھی ووٹ کے حق سے محروم نہیں کر دینا چاہئے؟
پھر وہ لوگ جو رشوت لیتے ہیں اور رشوت دیتے ہیں، وہ لوگ جو ناقص تعمیرات کے ذریعے لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالتے ہیں، وہ لوگ جو اپنا ووٹ بیچ دیتے ہیں، وہ جو ووٹ خرید لیتے ہیں یا وہ جوسیاسی لوگوں کی مہم چلا کر بدلے میں لوگوں کی زمینوں پر قبضے کا دھندہ کرتے ہیں۔ کیا ان سب کو ووٹ کا حق ہونا چاہیے؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو اس کے نتیجے میں یقیناوہ پارلیمنٹ وجود میں آئے گی جو انہی لوگوں کی نمائندہ اور محافظ ہو گی جو شاید شہریت ملنے کے بھی حقدار نہیں۔ آپ ایسی پارلیمنٹ اور ایسی جمہوریت سے خیر کی توقع کرتے رہیے، اگلے سو سال تک۔